آئرش مالی بحران: اعلیٰ سطحی وفد ڈبلن میں
18 نومبر 2010یورپی یونین کے رکن ملکوں میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ اگر آئرش حکومت اپنے مالیاتی بحران کے حوالے سے بیل آؤٹ پیکج یا قرضے کو جلد منظور نہیں کرتی تو وہاں کے بحران کے منفی اثرات سے یورپی مالی منڈیوں کے ساتھ ساتھ کرنسی یورو عدم استحکام کا شکار ہو سکتی ہیں۔ اس کے سبب ان دنوں یورو کرنسی کی قدر میں اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
یورپی یونین کے اقتصادی کمیشنر اولی رہن (Olli Rehn) نے یورپی یونین کے وزرائے خزانہ کی برسلز منعقدہ کانفرنس کے دوران بتایا تھا کہ آئر لینڈ کو سنگین مالی مسائل کا سامنا ہے اور اس کا بینکنگ کا شعبہ دیوالیہ کے قریب ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے (IMF) اور یورپی مرکزی بینک کے جو حکام اس وقت ڈبلن پہنچے ہوئے ہیں وہ ممکنہ مالیاتی پیکج کی تفصیلات کے ساتھ آئر لینڈ کے ریئل اسٹیٹ بزنس اور اس کی مجموعی صورت حال کا بھی جائزہ لیں گے ۔ یورپی یونین کے اقتصادی کمیشنر اولی رہن کے مطابق یورپی سینٹرل بینک، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ اور آئرش حکام مالی پیکج یا امکانی طور پر دیئے جانے والے قرضےکے معاملے میں حائل پیچیدگیوں کو ختم کرنے کی کوششوں میں ہیں۔
آئر لینڈ کے مرکزی بینک کے سربراہ پیٹر ک ہونو ہان (Patrick Honohan) کا بھی مالیاتی بحران کے حوالے سے کہنا ہے کہ بحران پر قابو پانے کے لئے ان کے ملک کو بڑے قرضے کی یقینی طور پر ضرورت ہے۔ ہونو ہان کے مطابق یورپی سینٹرل بینک اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے حکام کے ساتھ بیل آؤٹ کی جگہ بھاری قرضے کے حوالے سے مذاکرات جاری ہیں اور یہ حکومت کو قابل قبول ہو سکتا ہے۔
اس سے قبل یورپی یونین اور دوسرے عالمی مالی اداروں کے ساتھ مذاکراتی عمل کی تصدیق آئر لینڈ کے وزیر اعظم برائن کوین (Brian Cowen) نے دو تین روز قبل اپنی پارلیمنٹ میں پالیسی تقریر میں ضرورکی تھی۔ اس تقریر میں کوین نے واضح کیا تھا کہ یورپی یونین اور انٹرنینشنل مانیٹری فنڈ کے ساتھ یقینی طور پر مالی صورت حال پر بات چیت جاری ہے لیکن حکومت کی جانب سے امداد کی کوئی درخواست روانہ نہیں کی گئی ہے۔
یورپی یونین کے رکن ممالک کو یہ فکر لاحق ہے کہ یونان کے بعد اب آئر لینڈ کو مالیاتی بحران کے نتیجے میں ایک خطیر رقم کی ضرورت یقینی طور پر ہو گی۔ مبصرین کے نزدیک آئر لینڈ کے لئے اگر مالیاتی پیکج کو منظور کیا جاتا ہے تو اس کا حجم 45 ارب یورو یا 61 ارب ڈالر سے کہیں زیادہ ہو سکتا ہے۔ اگر طویل مدتی قرضے کی بات طے ہوتی ہے تو وہ اس سے زیادہ ہو سکتا ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: کشور مصطفیٰ