نیپال میں ماؤ نوازوں کی کامیابی، بھارت کے لیے درد سر
13 دسمبر 2017ہمالیائی ریاست نیپال میں سات دسمبر کو منعقد ہونے والے عام انتخابات میں بائیں بازو کی کمیونسٹ ماؤ نواز اتحا د نے زبردست کامیابی حاصل کی ہے اور سابق وزیر اعظم کے پی شرما اولی جلد ہی ملک کا اقتدار سنبھال لیں گے جو حالیہ عرصے میں چین کے کافی قریبی آگئے ہیں۔
نیپال، بھارت او رچین کے درمیان ایک بفر اسٹیٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ بھارت اور نیپال کے درمیان ماضی میں انتہائی قریبی اور دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کی سرحدیں کھلی ہوئی ہیں اور ایک دوسرے کے شہری کسی ویزا کے بغیر ایک دوسرے کے یہاں آجاسکتے ہیں۔ نیپال واحد ایسا ملک ہے جس کے شہری بھارتی فوج میں کام کرسکتے ہیں اور تھر ی اسٹار جنرل کے عہدہ تک ترقی پاسکتے ہیں۔ بھارت نیپال کی ہمیشہ مدد کرتا رہا ہے۔ 2015میں نیپال میں آئے ہلاکت خیز زلزلہ کے بعد بھارت نے امدادی اور بحالی کے کاموں میں کافی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا جس کی کافی ستائش بھی ہوئی۔
لیکن وزیر اعظم کے پی اولی کی حکومت پارلیمنٹ میں اکثریت ثابت نہیں کرنے کی وجہ سے گِر گئی تو یہ الزام لگایا گیا کہ ان کی حکومت کو گرانے میں درپردہ بھارت کا ہاتھ ہے۔
اولی حکومت میں ہی جب نیپال کا نیا آئین پیش کیا گیا تو مدھیشیوں نے مناسب نمائندگی نہیں دینے کا الزام لگاتے ہوئے اس کی زبردست مخالفت کی۔ مدھیشی دراصل نیپال میں آباد بھارتی نسل کے لوگوں کو کہا جاتا ہے۔ مدھیشیو ں نے حکومت کے خلاف پرتشدد مظاہرے شروع کیے تو بائیں بازو کی جماعتوں نے الزام لگایا کہ بھارت ان مظاہرین کی مدد کررہا ہے۔ پانچ ماہ تک چلنے والے مظاہرے اور ناکہ بندی نے نیپال کی اقتصادی حالت خراب کردی کیوں کہ وہ ضروری اشیاء کی سپلائی کے لیے بھارت پر ہی انحصار کرتا ہے۔ نیپال کو پٹرول، ادویات حتٰی کہ کھانے پینے کی چیزوں کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس صورت حال نے بھارت اور نیپال کے رشتوں میں تلخی گھول دی۔
بھارت کے رویے سے ناراض نیپال نے چین کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔ اس وقت کے وزیر اعظم کے پی اولی 2016میں چین کے دورے پر گئے اور ان کے اُس دورے کے دوران یک ٹرانزٹ معاہدہ پر دستخط ہوئے جو نیپال کو چین کی بندرگاہوں تک رسائی دیتا ہے اور اسے ریلوے سے جوڑتا ہے۔ چین کی طرف سے نیپال کو پٹرولیم فروخت کرنے کے امکانات پر بھی غور وخوض کیا جا رہا ہے اور اگر یہ عمل شروع ہوگیا تو نیپال کا بھارت پرانحصار تقریباً ختم ہوجائے گا۔ اس سال نیپال نے چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے پر دستخط بھی کیے ہیں۔گزشتہ اگست میں چین کے نائب وزیر اعظم وانگ یانگ نے نیپال کا دورہ کیا جب کہ نیپال میں بھارت کے ہندو کارڈ کے جواب میں چین نے بودھ رابطہ کو بڑھانا شروع کردیا ہے۔
اسٹریٹیجک امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ نیپال کی نئی اولی حکومت بھارت کی قیمت پر چین کے ساتھ نئے سرے سے دوستی کا ہاتھ بڑھاسکتی ہے اور یہ بھارت کی خارجہ پالیسی کے لیئے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔
سابق خارجہ سیکرٹری کنول سبل کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اتحاد کے اقتدار میں آنے اور بالخصوص اولی کے وزیر اعظم بننے کے بعد نیپال کے ساتھ بھارت کو اپنے سفارتی تعلقات کو بہتر رکھنا کافی مشکل اور پیچیدہ ہوجائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ چین نے نیپال کی بائیں بازو کی جماعتوں کو ایک ساتھ لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اب انتخابات میں ان کی کامیابی کے بعد وہ فائدہ اٹھانے کی کوشش ضرور کرے گا۔
اسٹریٹیجک امور کے ماہر برہم چیلانی کے خیال میں نیپال کے سیاسی اور آئینی بحران کے لیے اولی نے بھارت کو قربانی کا بکرا بنا دیا تھا۔ اقتدار میں ان کی واپسی بھارت کے لیے بری خبر ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ چین اس خطے میں اپنی موجودگی بڑھانے کی جو کوشش کررہا ہے وہ پہلے ہی بھارت کے لیے پریشان کن ہے اور اب یہ بھارت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔
مشہور تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ انالسس میں ریسرچ اسکالر نہار رنجن نائک کا کہنا ہے کہ نیپال میں خواہ جو بھی اقتدار میں آئے بھارت کے پاس اس کے ساتھ مل کر کام کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
نئی صورت حال کے مدنظر بھارت نے نیپال میں بائیں بازو کے رہنماؤں کے ساتھ اپنے ذاتی تعلقات کو بروئے کار لانا شروع کردیا ہے۔ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے جنرل سیکرٹری رام مادھو کے اولی سے اچھے تعلقات ہیں۔ بائیں بازو اتحاد کی کامیابی کا اشارہ ملتے ہی رام مادھو نے ٹوئیٹر پر جیت کی مبارک باد دی۔