آسٹریلیا میں اسلام مخالف مظاہروں میں ہزاروں افراد کی شرکت
4 اپریل 2015ری کلیم آسٹریلیا نامی تنظیم کے مطابق سڈنی اور میلبورن سمیت دیگر سولہ مقامات میں نکالے گئے جلوس آسٹریلوی اقدار کے حق میں اور اسلامی انتہاپسندی کو مسترد کرنے کے لیے نکالے گئے۔ اِن جلوسوں میں شرکاء ’یس آسٹریلیا، نو شریعہ‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ شرکاء نے ہزاروں آسٹریلوی پرچم بھی اٹھا رکھے تھے۔ مختلف بینروں پر بھی اسلامی انتہا پسندی کے خلاف نعرے درج تھے۔ ری کلیم کے جلوسوں کو مخالف حلقوں کی تنقید کا سامنا بھی ہوا ہے۔ ری کلیم آسٹریلیا کے ساتھ مختلف چھوٹے گروپس نے بھی ان اجتماعات میں شرکت کی۔
ری کلیم آسٹریلیا کی ترجمان کیتھرین برینن نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے جلوس نکالنے کا مقصد آسٹریلوی اقدار کا فروغ ہے کیونکہ یہ تنظیم آسٹریلیا نواز ہے اور انتہا پسند اسلام کی مخالف بھی۔ کیتھرین برینن کے مطابق ری کلیم آسٹریلیا مسلمانوں کا مخالف گروپ نہیں ہے اور اِن جلوسوں کو نکالنے کا مقصد کسی طور پر نسل پرستانہ تعصب پر مبنی نہیں ہے۔ ترجمان کے مطابق اُن کے جلوسوں میں مختلف سماجی گروپوں اور کئی نسلوں کے لوگ کی شرکت ظاہر کرتی ہے کہ ری کلیم آسٹریلیا نسل پرستی پر یقین نہیں رکھتی۔
آسٹریلین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ری کلیم آسٹریلیا کے اسلام مخالف جلوسوں کے ایک منتظم کار جان اولیور نے کہا کہ اُن کی تنظیم کسی نسل یا کسی مخصوص مذہب کی ہرگز مخالف نہیں بلکہ ایک مذہب کے انتہاپسندوں کی مخالف ہے۔ اسلام مخالف جلوسوں میں کئی شرکاء اسپیکروں پر ’نو اسلام، نو حلال اور نو شریعہ‘ کے سلوگن بھی بلند کر رہے تھے۔ میلبورن میں ری کلیم کے حامیوں اور مخالفین میں ہاتھا پائی بھی ہوئی۔ اِس ہاتھا پائی کے کچھ دیر بعد گھوڑوں پر سوار پولیس نے اِن کے درمیان پہنچ کر انہیں علیحدہ کر دیا۔ میلبورن میں تین اور ہوبارٹ میں ایک شخص کی گرفتاری کی تصدیق کی گئی ہے۔
ری کلیم کے اسلام مخالف جلوسوں کے ناقدین کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا کوفی الوقت برداشت کی سخت ضرورت ہے اور کسی بھی مذہب کے مخصوص حلقوں کو نشانہ بنانے سے عدم برداشت کے رویے کو تقویت حاصل ہو گی۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ ری کلیم آسٹریلیا حقیقت میں مسلم مخالف تنظیم ہے۔ سڈنی میں ری کلیم کے مخالف جلوس کے ایک منتظم کار کلیئر فیسٹر کا کہنا ہے کہ ری کلیم کی ریلیوں سے نسل پرستی کے رویوں کو قوت حاصل ہو گی۔ اسلام مخالف ریلیوں کے علاوہ بائیں بازو کی مختلف تنظیموں نے امتیازی رویے کو فروغ دینے کے خلاف بھی مظاہرے کیے۔