اسرائیلی انتخابات، یَش عاتید نے حیران کر دیا
23 جنوری 2013اسرائیلی ووٹروں نے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ دائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والا ان کا لیکود بیت نو اتحاد اکتیس نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ صحافی یائر لاپید کو پارلیمان انتخابات کا غیر متوقع فاتح قرار دے رہے ہیں جبکہ وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے اتحاد کو گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں دس نشستیں کم حاصل ہوئی ہیں۔ گو کہ بینجمن نیتن یاہو کا اتحاد اس مرتبہ بھی سب سے زیادہ یعنی اکتیس نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے لیکن ان نتائج کو اُن کی شکست سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ شب یَش عاتید کے کارکنوں نے اس کامیابی کے بعد جشن منایا۔ اس موقع پرلاپید نے خطاب میں اسرائیل کو درپیش مشکلات کا ذکر کیا۔ ’’اسرائیلی ریاست کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ اقتصادی بحران ہمارے دروازے کھٹکھٹا رہا ہے۔ یہ صورتحال اسرائیل میں بسنے والی مڈل کلاس کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کے تنہا ہو جانے کا بھی خطرہ ہے۔ ’ایک ساتھ اور مل جل کر ‘وہ واحد طریقہ ہے، جس کے ذریعے ان تمام مشکلات کو حل کیا جاسکتا ہے۔‘‘
گزشتہ روز ایک جانب یش لاتید کے حامی 120 ارکان پر مشتمل اسرائیلی پارلیمان کنیسٹ میں 19 نشستیں حاصل کرنے پر خوشیاں منا رہے تھے۔ دوسری طرف انہی اوقات میں اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے بھی اپنے کارکنوں سے خطاب کیا۔ اس موقع پراسرائیل کے ذرائع ابلاغ شدید پریشانی کا شکار ہو گئے اور انہوں نے کبھی غیر متوقع فاتح یائر لاپید کو دکھایا تو کبھی ٹی وی اسکرین پر بینجمن نیتن ہاہو کی باری تھی۔
نیتن یاہو ان نتائج کے بعد اسرائیلی وزارت عظمٰی کے منصب پر فائز رہیں گے۔ انہوں نے اپنے اگلے دور حکومت کے پانچ اہداف کا ذکر کیا۔ ’’ ایران کو جوہری طاقت بننے نہیں دیا جائے گا، اسرائیلی معیشت کو مستحکم کرنا اور فلسطین کے ساتھ پرامن تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کے علاوہ آرتھوڈوکس یا قدامت پسند طلبہ کے لیے فوجی سروس کو لازمی قرار دینے کے ساتھ ساتھ مہنگائی بھی کم کی جائے گی‘‘۔
وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کو حکومت سازی کے لیے کئی اتحادیوں کی ضرورت ہو گی۔ ماہرین کے مطابق ان کے لیے یہ آسان مرحلہ نہیں ہو گا۔ انہیں اُن جماعتوں سے بھی رابطہ کرنا پڑے گا، جو ان کی پالیسیوں سے اختلاف کرتی آرہی ہیں۔
یائر لاپید کی پارلیمان میں دوسری بڑی جماعت کے طور پر ابھرنا اور گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں ووٹنگ کے تناسب میں نمایاں اضافہ اس امر کو ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیلی ایک نئی سیاست اور حکومت میں نئے چہروں کو دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔
C.Wagner / ai / zb