افریقی ممالک کا اقوام متحدہ میں نسل پرستی پر بحث کا مطالبہ
13 جون 2020امریکا میں افریقی نژاد شہری جارج فلوئڈ کی ایک پولیس کارروائی کے نتیجے میں ہلاکت کے بعد بین الاقوامی سطح پر ہونے والے مظاہروں کے پس منظر میں جملہ افریقی ریاستوں نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل سے نسل پرستی اور پولیس کی طرف سے زیادتیوں کے موضوع پر فوری بحث کا مطالبہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں ہیومن رائٹس کونسل کو لکھے گئے ایک خط پر براعظم افریقہ کے تمام 54 ممالک نے دستخط کیے ہیں۔
جینوا میں اقوام متحدہ کے لیے برکینا فاسو کے سفارت کار ڈیوڈون ڈیزائر سوگوری نے ان 54 ممالک کی طرف سے یہ خط لکھا ہے، جس میں انسانی حقوق کی کونسل سے نسل پرستی کی وجہ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، افریقی نژاد باشندوں کے ساتھ پولیس کی زیادتیوں اور پرامن مظاہرین کے خلاف پر تشدد کارروائیوں جیسے موضوعات پر فوری بحث کا مطالبہ کیا گيا ہے۔ اس خط میں ایسی ناانصافیوں کو ختم کرنے کی بات بھی کی گئی ہے۔
اس خط میں کہا گيا ہے کہ آئندہ ہفتے جب انسانی حقوق کی کونسل کا 43 واں اجلاس دوبارہ شروع ہو، تو ان موضوعات پر کھل کر بات ہونا چاہیے۔ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے سبب اقوام متحدہ کے بھی تقریباﹰ تمام اداروں کا کام کاج بند رہا جو آئندہ ہفتے سے بحال ہونے کا امکان ہے۔
اس سے قبل جارج فلوئڈ کے اہل خانہ، پولیس کی زیادیتوں کا شکار ہونے والے دیگر متاثرین کے لواحقین اور انسانی حقوق کی علم بردار تقریباﹰ چھ سو تنظیموں نے بھی اقوام متحدہ سے کہا تھا کہ اسے نسل پرستی کے تناظر میں پولیس کی زیادتیوں پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس اپیل کے بعد ہی افریقی ممالک کی جانب سے جنیوا میں عالمی ادارے کی کونسل کو یہ خط لکھا گيا ہے۔
انسانی حقوق کی کونسل میں اس طرح کی درخواست پر غور کے لیے کم از کم کسی ایک رکن ملک کی تائید درکار ہوتی ہے۔ تاہم کونسل کے ایک ترجمان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ چونکہ یہ مطالبہ درجنوں ممالک نے کیا ہے، اس لیے غالب امکان یہی ہے کہ اب اس موضوع پر کونسل کا ایک اجلاس ہو گا۔
امریکا میں 46 سالہ افریقی نژاد شہری جارج فلوئڈ کو ریاست مِنیسوٹا کے مرکزی شہر مینییاپولس میں چار سفید فام پولیس اہلکاروں نے اپنی ایک کارروائی کے دوران سڑک پر پیٹ کے بل گرا دیا تھا اور پھر ان میں سے ایک پولیس اہلکار اپنے ایک گھٹنے سے فلوئڈ کی گردن پر پوری طاقت سے تقریبا ًنو منٹ تک دباؤ ڈالتا رہا تھا۔ اس دوران فلوئڈ کے ہاتھ اس کی کمر پر بندھے ہوئے تھے اور وہ پولیس سے التجا کرتے رہے تھے، ''پلیز، میں سانس نہیں لے پا رہا ہوں۔ میرا دم گھٹ رہا ہے۔ مجھے جان سے نہ مارنا۔" لیکن ان پولیس اہلکاروں نے ان کی ایک نہ سنی تھی اور اسی کارروائی کے چند منٹ بعد جارج فلوئڈ کی موت واقع ہو گئی تھی۔
جس پولیس اہلکار نے فلوئڈ کی گردن کو اپنے گھٹنے سے دبا رکھا تھا، اس کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جا چکا ہے۔ اس معاملے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد امریکا کی سبھی ریاستوں میں مظاہرے شروع ہوگئے تھے، جو دیکھتے دیکھتے ہی یورپ سمیت دنیا کے کئی ممالک تک پھیل گئے تھے۔ اسی حوالے سے برطانیہ میں مظاہروں کا سلسلہ تو اب بھی جاری ہے۔
افریقی ممالک نے ہیومن رائٹس کونسل کے نام اپنے خط میں لکھا ہے، ’’کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس طرح کے جانے کتنے ہی دیگر متاثرین پر اس لیے توجہ نہیں دی گئی کیونکہ ان کی ویڈیوز نہیں بن سکیں اور لوگ انہیں دیکھ نہیں سکے۔ آج دنیا بھر میں جو مظاہرے دیکھنے میں آ رہے ہیں، وہ اس نسلی عدم مساوات اور امتیازی سلوک کو مسترد کرتے ہیں جو امریکا میں افریقی نژاد شہریوں اور دیگر نسلوں کے باشندوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔‘‘
امکان ہے کہ پیر کے روز اس بارے میں ایک اجلاس کے لیے وقت مقرر کیا دیا جائےگا اور اگر کسی رکن ملک کو کوئی اعتراض نہ ہوا، تو اس موضوع پر بحث ہونا بھی یقینی ہے۔
ز ص / م م