افغانستان میں آسٹریلوی فوج کے ممکنہ جنگی جرائم کی تفتیش
2 ستمبر 2017آسٹریلیا کے شہر ملبورن سے ہفتہ دو ستمبر کے روز ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق آسٹریلین ڈیفنس فورس کے انسپکٹر جنرل نے ایک پبلک اپیل میں کہا ہے کہ اگر کسی کے پاس ایسی کوئی اطلاعات ہوں، جو ان افواہوں سے متعلق ہوں کہ افغانستان میں تعیناتی کے دوران ملکی فوجی دستے مبینہ جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے، تو یہ اطلاعات انسپکٹر جنرل کے دفتر کو مہیا کی جائیں۔
اس پبلک اپیل میں کہا گیا ہے، ’’یہ افواہیں کہ آسٹریلیا کے فوجی دستے 2005 اور 2016 کے درمیانی عرصے میں افغانستان میں مسلح تنازعے سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے، ان افواہوں کی صداقت سے متعلق اگر کسی کے پاس کوئی بھی معلومات ہوں، تو وہ اس بارے میں قائم کردہ انکوائری کمیٹی سے رابطہ کرے۔‘‘
کیا افغانستان کی معدنیات نے ٹرمپ کی سوچ تبدیل کی؟
’افغانستان میں امریکی فوجیوں کی حقیقی تعداد گیارہ ہزار‘
ٹرمپ کی افغان پالیسی، جنوبی ایشیا مزید غیر مستحکم ہو جائے گا؟
اس اپیل سے قبل اس سال جولائی میں آسٹریلین براڈکاسٹنگ کارپوریشن نے یہ رپورٹیں جاری کی تھیں کہ ملکی فوجیوں نے افغانستان میں مبینہ طور پر ایک مقامی لڑکے کی ہلاکت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ ساتھ ہی اس نشریاتی ادارے نے آسٹریلین ڈیفنس فورس کی سینکڑوں ایسی خفیہ دستاویزات کی تفصیلات بھی جاری کر دی تھیں، جن کے مطابق ملکی اسپیشل فورسز افغانستان میں خفیہ سرگرمیوں میں مصروف رہی تھیں۔
عسکری حوالے سے آسٹریلیا کے بارے میں اہم بات یہ ہے کہ یہ ملک مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا رکن تو نہیں لیکن امریکا کا ایک بہت قریبی اتحادی ملک ہے، جس کے فوجی دستے 2002 سے افغانستان میں تعینات ہیں۔
پاکستانی قربانیوں کا احترام کیا جائے، چین
افغانستان میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کا صفایا کر دیں گے، امریکی جنرل
افغانستان میں طالبان اور اسلام کے نام پر خونریزی کرنے والی عسکریت پسند تنظیموں کے مسلح جنگجوؤں کے خلاف جنگ کو اب 16 برس ہو چکے ہیں۔ آسٹریلیا نے اس سال مئی میں افغانستان میں پہلے سے موجود اپنے فوجی دستوں کے علاوہ مزید 30 فوجی اس لیے وہاں بھیجنے کا اعلان کیا تھا کہ وہ وہاں نیٹو کی قیادت میں فوجی تربیتی اور امدادی مشن میں حصہ لے سکیں۔ اس وقت ہندو کش کی اس ریاست میں آسٹریلیا کے 300 فوجی تعینات ہیں۔