افغانستان میں انسداد منشیات کی مہم کے خلاف کسانوں کی مزاحمت
7 مئی 2024سیٹلائٹ تصاویر سے یہ تائثر ملتا ہے کہ افغانستان میں حکمران طالبان افیون کی پیداوار کم کرنے میں کامیاب رہے ہیں، لیکن زرعی اراضی پر پوست کی فصل کاشت کر کے اپنی روزی روٹی کمانے والے کسانوں میں گہری محرومی پائی جاتی ہے۔ ان کسانوں نے چند خطرناک علاقوں میں انسداد منشیات کے یونٹوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے بعض اوقات اپنی جانوں کی قیمت بھی ادا کی۔
گزشتہ ہفتے کے اختتام پر پہاڑی صوبے بدخشاں میں انسداد منشیات کے ایک یونٹ اور کسانوں کے مابین پرتشدد جھڑپوں کے نتیجے میں صوبائی پولیس کے مطابق دو افراد ہلاک ہو گئے۔
بدخشاں میں موسم بہار میں پوست کی صرف ایک فصل تیار ہوتی ہے اور یہ جھڑپیں عین اس وقت شروع ہوئیں، جب انسداد منشیات کے ذمے دار یونٹ اس دیہی صوبے کے کچھ حصوں میں فصلوں کو تباہ کرنے کے لیے نکلے۔
مقامی پولیس نے اے ایف پی کو بتایا کہ جمعے اور ہفتے کو بالترتیب داریم اور آرگو دونوں اضلاع میں ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک ہوا۔ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ آرگو میں طالبان حکام اور سازشی عناصر کی تخریب کاری کے شکار کسانوں کے درمیان جھگڑا ہوا تھا۔
پولیس کے ایک ترجمان کا کہنا تھا، ''مقامی لوگوں نے مجاہدین (طالبان اہلکاروں) پر پتھر اور لکڑیاں پھینکیں اور ان کی گاڑیوں اور سامان کو جلانے کی کوشش کی۔‘‘ بتایا گیا ہے کہ اس کے ردعمل میں ایک مقامی باشندہ مارا گیا۔ مقامی باشندوں نے بتایا کہ آرگو میں چھ افراد زخمی بھی ہوئے۔
پوست کی کاشت پر پابندی
اپریل 2022 ء میں طالبان کے سپریم لیڈر کے ایک حکم نامے کے ذریعے پوست کی کاشت پر پابندی سے قبل افغانستان افیون پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسداد منشیات اور جرائم (UNODC) کے اعداد و شمار کے مطابق پچھلے سال افغانستان میں منشیات کی پیداوار میں 95 فیصد کمی واقع ہوئی۔ کابل میں طالبان حکام کے اس اقدام کو بین الاقوامی برادری کی طرف سے سراہتے ہوئے ان کی تعریف کی گئی۔
لیکن منشیات کی پیداوار کے خلاف ہونے والے کریک ڈاؤن کے نتیجے میں منافع بخش فصل پر انحصار کرنے والے افغان کسانوں نے گزشتہ سال اپنی آمدنی کا 92 فیصد حصہ کھو دیا۔ افغانستان میں اگرچہ کسانوں کو مختلف فصلیں لگانے کی ترغیب دی گئی ہے، لیکن کوئی بھی دوسری فصل پوست کی کاشت سے ہونے والے مالی منافع کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اس وجہ سے کچھ کسان نہایت احتیاط اور ہوشیاری سے چھوٹے چھوٹے قطعات ارضی پر یہ کاشت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
افیون کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ
اقوام متحدہ کے منشیات اور جرائم کے انسداد کے دفتر (UNODC) کے مطابق پوست کی کاشت پر پابندی کی وجہ سے مارچ 2024 ء تک ایک سال میں افیون کی قیمت میں واضح اضافہ ہوا، جو اوسطاً 800 ڈالر سے 1,000 ڈالر فی کلوگرام تک پہنچ گئی۔
افغانستان کے حکومتی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اعلان کیا کہ گزشتہ ہفتے پیش آنے والے افسوسناک واقعات کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بھیج دی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پوست کی کاشت کو ختم کرنے کا حکم نامہ ''بغیر کسی استثنیٰ کے تمام علاقوں پر لاگو کرتا ہے۔‘‘
بدخشاں سے تعلق رکھنے والے وزارت قومی دفاع کے چیف آف اسٹاف فصیح الدین فطرت کو تحقیقاتی کمیٹی کی سربراہی کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔
کسان ناراض کیوں ہیں؟
طالبان حکومت کی انسدد منشیات کی مہم کو مقامی کسان امیتازی سلوک سمجھتے ہیں اور اس کی شکایت کرتے ہیں۔ ان کاشت کاروں کا دعویٰ ہے کہ طالبان حکام ان لوگوں کی طرف سے غیر قانونی پیداوار پر آنکھیں بند کر لیتے ہیں جن کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات ہیں۔
ضلع آرگو کے رہائشی ایک 29 سالہ نوجوان نے اپنے خلاف انتقامی کارروائی کے خوف سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ اینٹی نارکوٹکس یونٹ کے اہلکار جب پوست کی خفیہ فصلوں کی تلاش میں آئے، تو انہوں نے ''گھروں میں گھسنے کے لیے دروازے تک توڑ دیے۔‘‘
اس نوجوان کا مزید کہنا تھا، ''جب لوگوں نے مزاحمت کی تو انہوں نے ان پر فائر کھول دیے۔‘‘
ایک 45 سالہ کسان نے بھی اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے بتایا، ''سکیورٹی فورسز نے گھروں میں گھس کر لوگوں کی توہین کی اور انہیں مارا پیٹا۔‘‘
آرگو کے ایک اور رہائشی باشندے نے شکایت کی کہ حکام مقامی عمائدین، کمیونٹی رہنماؤں یا مساجد کے آئمہ کو بتائے بغیر عین نماز کے وقت مقامی لوگوں کے گھروں میں گھس گئے۔‘‘
داریم میں ہونے والے واقعات پر درجنوں شہری سراپا احتجاج بن گئے۔ سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی فوٹیج کے مطابق مظاہرین میں سے چند ایک لاش اٹھائے ہوئے بھی نظر آئے۔ مظاہرین ''امارت اسلامی افغانستان مردہ باد‘‘ کا نعرہبھی لگا رہے تھے۔
ک م/ م م (اے ایف پی)