افغانستان میں تشدد کی کمی، کیا ممکن ہے؟
20 نومبر 2020عمران خان نے یہ وعدہ کل بروز جمعرات کابل میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی تھی۔ واضح رہے کہ جنگ زدہ ملک میں امن کی بحالی کے امکانات افغان امن مذاکرات کے باوجود ابھی تک روشن نہیں ہیں اور حالایہ ہفتوں میں ملک کے طول و عرض پر نہ صرف طالبان نے حملے کیے بلکہ داعش نے بھی تواتر کے ساتھ افغان شہریوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا۔
عمران خان کا پہلا اور ’تاریخی‘ دورہ افغانستان
افغانستان میں امن کوششیں، پاکستان میں بدامنی؟
کئی مبصرین کا خیال ہے کہ اسلام آباد پر امن کے بحالی کی حوالے سے مختلف حلقوں کا سخت دباؤ ہے لیکن افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے کہتے ہیں یہ کام آسان نہیں۔
پیچیدہ صورت حال
افغان تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے معروف صحافی و تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے یہ کام بہت مشکل ہے۔ ''اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے حالیہ مہینوں میں جنگ بندی کی کئی کوششیں کی اور طالبان سے درخواست بھی کی لیکن طالبان نے اس درخواست کو مسترد کر دیا۔ اب اگر پاکستان دوبارہ درخواست کرتا ہے اور وہ مسترد کرتے ہیں تو پاکستان کیا کرے گا۔ اگر اسلام آباد حقانی نیٹ ورک یا طالبان کے لوگوں کو گرفتار کرتا ہے یا انہیں ملک سے نکالتا ہے تو مسئلہ سلجھنے کے بجائے مذید الجھ جائے گا۔‘‘
اسٹریجک ڈیپتھ
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان کی اسٹریجک ڈیپتھ کا تصور افغان امن میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور جب تک یہ پالیسی تبدیل نہیں ہوتی افغانستان میں امن نہیں ہو سکتا۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے افغان امور کے ماہر مختار باچا کا کہنا ہے کہ پاکستان چاہے تو کل افغانستان میں امن قائم ہوجائے۔ ''لیکن پاکستان کو طالبان کی حمایت ختم کرنی ہوگی اور اسٹریجک ڈیپتھ کے تصور کو دفنانا پڑے گا۔ طالبان آج بھی ہمارے پے رول پر ہیں۔ یہیں رہتے ہیں اور یہیں کام کرتے ہیں۔ اگر ہم وہاں امن چاہتے ہیں تو ہمیں افغانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ وہ ایک خودمختار ملک ہے اور اپنے مسائل خود حل کر سکتا ہے۔‘‘
تاہم رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ پاکستان اس تصور کو کب کا چھوڑ چکا ہے۔ ''میرے خیال میں پاکستان نہیں چاہتا کہ طالبان نوے کی دہائی والی طاقت کے ساتھ آئیں کیونکہ اتنی طاقت ہمارے مفاد کے خلاف بھی ہے۔ نوے کی دہائی میں طالبان نے پاکستان کی اسامہ بن لادن، بدھا کا مجسمہ اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں منفی لسٹ کے معاملات میں پاکستان کی درخواستیں مسترد کر دی تھیں۔ اس کے علاوہ ریاض بسرا اور دوسرے دہشت گردوں کی حوالگی پر بھی پاکستان کو مایوس کیا تھا۔ تو میرے خیال میں اسلام آباد افغانستان میں امن کے لیے مخلص ہے لیکن جنگ زدہ ممالک میں مسائل ہمیشہ پیچدہ ہوتے ہیں۔‘‘
چینی مفاد
رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ پاکستانی اخلاص کی ایک وجہ چینی فیکڑ ہے۔ ''چین چاہتا ہے کہ خطے میں استحکام آئے۔ خطے کے ممالک میں جڑت ہو اور کاروبار کو فروغ حاصل ہو لیکن اس میں سب سے بڑی رکاوٹ افغانستان کی بدامنی ہے۔ چین نے پاکستان، وسطی ایشیا، ایران اور روس میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی اور وہ چاہتا ہے کہ اسلام آباد افغانستان میں امن قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ بیجنگ کے خود بھی طالبان سے براہ راست تعلقات ہیں۔‘‘
اخلاص کی کمی
معروف پشتون سیاست دان اور سابق رکن قومی اسمبلی بشریٰ گوہر کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کی فیکڑیوں کو بند کیے بغیر افغانستان میں امن نہیں ہو سکتا۔ ''کٹھ پتلی وزیر اعظم ماضی میں طالبان کی دہشت گردیوں کو جائز قرار دیتا رہا ہے۔ اگر وہ مخلص ہوتا تو افغانوں اور پشتونوں کے قتل عام پر معافیاں مانگتا۔ دہشت گردی کی فیکڑیاں بندکرنے کا وعدہ کرتا اور طالبان کے افغان عوام پرحملوں کی مذمت کرتا۔ اگر امریکا، اس کے اتحادی اور طالبان کے علاقائی سرپرست امن میں مخلص ہوتے تو وہ دوحہ مزاکرات میں جنگ بندی کو معاہدے میں لازمی قرار دیتے۔‘‘
جنگ بندی ممکن نہیں
معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل امجد شعیب کا کہنا ہے افغانستان میں مکمل جنگ بندی ممکن نہیں۔ ''اگر صورت حال کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو مکمل جنگ بندی اس مرحلے پر ممکن نہیں کیونکہ طالبان کی عسکری طاقت کی وجہ سے امریکا ان سے مزاکرات کرنے پر مجبور ہوا۔ اگر وہ جنگ بندی کر لیں تو کون ان سے بات کرے گا۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ حملے صرف طالبان کی طرف سے نہیں ہو رہے۔ ''بلکہ امریکی بھی طالبان پر حملے کرتے ہیں اور اپنی فضائیہ کو استعمال کرتے ہیں، جس سے عام شہری ہلاک ہو رہے ہیں۔ افغان فوجی طالبان قیدیوں یا جنگجووں کو مار رہے ہیں اور ان کی لاشوں کی بے حرمتی کر رہے ہیں، جو اشتعال انگیز ہے۔ اس کے علاوہ بھارت داعش کو افغانستان میں مضبوط کر رہا ہے تا کہ ان کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا جائے۔ تو تمام فریقوں کو تشدد کم کرنے کے لیے کام کرنا پڑے گا۔ پاکستان طالبان کو تشدد کم کرنے کا کہہ سکتا ہے لیکن اگر دوسرے فریق اپنا کردارادا نہیں کریں گے تو معاملہ حل نہیں ہوگا۔‘‘