اقوام عالم کے حقوق کا تحفظ: عالمی فوجداری عدالت کے بیس برس
17 جولائی 2018ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں قائم انٹرنیشنل کریمینل کورٹ یا آئی سی سی کی بنیاد یہ سوچ بنی تھی کہ بین الاقوامی سطح پر ایک ایسی خود مختار عدالت ہونی چاہیے، جو اپنے رکن ممالک کے قومی مفادات سے بالا تر ہو کر مختلف تنازعات میں اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے سنائے کہ اقوام عالم کے حقوق کے تحفظ کے تقاضے کیا ہیں۔
اس عدالت کے قیام کے لیے اقوام متحدہ کی سطح پر ہونے والے مذاکرات تین سال تک جاری رہے تھے، جو جولائی 1998 میں اطالوی دارالحکومت روم میں ہونے والے ایک تاریخی اجلاس میں اپنی تکمیل کو پہنچے تھے۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ایک فیصلے کے تحت اقوام عالم نے تین روز تک ایک طویل سفارتی بحث میں حصہ لیا تھا، جس کے اختتام پر اس نئی بین الاقوامی تعزیراتی عدالت کے قیام کی تجویز پر رائے شماری ہوئی تھی۔
جرمنی کی طرف سے اس دور میں اس عدالت کے قیام کے لیے بڑا اہم کردار ادا کیا گیا تھا، اور اس سلسلے میں جرمنی کی کاوشوں کی قیادت کلاؤس کنکل نے کی تھی، جو تب وفاقی جمہوریہ جرمنی کے وزیر خارجہ تھے۔ جرمنی نے اس امر کو یقینی بنانے میں بھی فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا کہ اس نئی عدالت کو مکمل طور پر خود مختار اور غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ یہ ویسی ہی کوششیں تھیں، جو اس وقت سے پہلے جرمنی نے سابق یوگوسلاویہ سے متعلق جنگی جرائم کے ٹریبیونل اور روانڈا میں نسل کشی سے متعلقہ مقدمات کی سماعت کرنے والی اقوام متحدہ کی خصوصی عدالت جیسے اداروں کے قیام کے لیے بھی کی تھیں۔
دی ہیگ میں آئی سی سی سے پہلے 1990 کی دہائی کے اوائل میں قائم کی گئی سابق یوگوسلاویہ اور روانڈا سے متعلق خصوصی عدالتوں کی ایک خامی یہ تھی کہ یہ عدالتیں مکمل طور پر اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں کے طور پر وجود میں آئی تھیں مگر بعد میں بین الاقوامی فوجداری عدالت یا انٹرنیشنل کریمینل کورٹ ایک قطعی غیر جانبدار اور خود مختار عالمی عدالت کے طور پر قائم کی گئی تھی۔
اس عدالت کے قیام کے حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ اسے ایک ایسے ادارے کے طور پر قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، جو تحفظ اور انصاف کے عالمی اصولوں کی بنیاد پر کام کرے۔ اس سے مختلف ممالک کے قومی مفادات متاثر ہو سکتے تھے۔ اسی لیے امریکا اور کئی دیگر ممالک نے اس کی رکنیت کو اپنے لیے ناقابل قبول قرار دیا تھا۔
امریکا آج بھی اس عدالت کا رکن ملک نہیں۔ اس لیے کہ امریکی فوجی دستے دنیا کے کئی ممالک میں تعینات ہیں اور ان کے خلاف کسی بھی مقدمے کی صورت میں دی ہیگ کی اس عدلت میں ان کے خلاف کارروائی کی جا سکتی تھی، جو امریکا کو قبول نہیں تھی۔
بیس سال قبل امریکا نے اس عدالت کے قیام کو اپنی پوری سفارتی اور سیاسی طاقت استعمال کرتے ہوئے روکنے کی کوشش کی تھی۔ اسی سفارتی رسہ کشی کے دوران امریکا نے تو جرمنی کو یہاں تک بھی دھمکی دے دی تھی کہ واشنگٹن جرمنی میں تعینات اپنے فوجی دستے واپس بلا لے گا۔ لیکن تب جرمنی نے اس امریکی دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا تھا۔
دی ہیگ کی یہ عالمی عدالت آج انسانیت کے خلاف جرائم کے مقدمات کی سماعت کرتی ہے۔ اس کے اولین 18 ججوں کی تعیناتی دو ہزار تین میں عمل میں آئی تھی۔ دو ہزار بارہ سے گیمبیا سے تعلق رکھنے والی فاتو بنسودہ اس عدالت کی چیف پراسیکیوٹر ہیں۔ آج اس عدالت کے رکن ممالک کی تعداد 123 ہے لیکن چین، امریکا، روس، بھارت، اسرائیل، ایران اور تقریباﹰ ساری ہی عرب ریاستیں ابھی تک اس کی رکن نہیں ہیں۔
دو ہزار تین میں اس عدالت کے جج منتخب ہونے اور دو ہزار چودہ میں انتقال کر جانے والے جرمن ماہر قانون اور سفارت کار ہانس پیٹر کاؤل کی یہ بات آج بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہے،’’بین الاقوامی فوجداری عدالت روشنی کا ایک مینار ہے، جو ہر روز دنیا کو یہ سگنل دیتا ہے کہ نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم، جنگی جرائم اور جارحیت ایسے شدید اور ناپسندیدہ جرائم ہیں، جو بین الاقوامی انسانی برادری میں ممنوع اور قابل سزا ہیں اور ان سے اجتناب کیا جانا چاہیے۔‘‘